banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 34 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(34)

ترجمہ: کنزالایمان اور ہر گروہ کا ایک وعدہ ہے تو جب ان کا وعدہ آئے گا ایک گھڑی نہ پیچھے ہو نہ آگے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور ہر گروہ کے لئے ایک مدت مقرر ہے تو جب ان کی وہ مدت آجائے گی تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہو ں گے اورنہ ہی آگے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ:اور ہر گروہ کے لئے ایک مدت مقرر ہے۔}اس آیت میں مقررہ مدت سے یا تو یہ مراد ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کرنے والی امتوں کیلئے عذاب کا ایک وقت مقرر ہے اور جب وہ وقت آئے گا تو عذاب ضرور آئے گا۔ آیت کا دوسرا معنیٰ یہ ہوسکتا ہے کہ ہر کسی کی موت کا وقت مقرر ہے اور جب وہ وقت آئے گا تو موت کا تلخ گھونٹ پینا پڑے گا۔

موت کے لئے ہر وقت تیار رہیں :

چونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے اس لئے ہر وقت موت کیلئے تیار رہنا چاہیے اور ہر وقت گناہوں سے دور اور نیک اعمال میں مصروف رہنا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو۔ (1) اپنے بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔ (2) اپنی بیماری سے پہلے صحت کو۔ (3)اپنی محتاجی سے پہلے مالداری کو۔ (4)اپنی مصروفیت سے پہلے فراغت کو۔ (5) اپنی موت سے پہلے زندگی کو۔ (مستدرک، کتاب الرقاق، نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس۔۔۔ الخ، ۵ / ۴۳۵، الحدیث: ۷۹۱۶)

            حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے وعظ میں فرماتے ’’جلدی کرو جلدی کرو کیونکہ یہ چند سانس ہیں ، اگر رک گئے تو تم وہ اعمال نہیں کر سکو گے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو اپنے نفس کی فکر کرتا ہے اور اپنے گناہوں پر روتا ہے(احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل۔۔۔ الخ، بیان المبادرۃ الی العمل وحذر آفۃ التاخیر، ۵ / ۲۰۵)۔([1])


[1] موت کی تیاری کی رغبت پانے کے لئے کتاب’’موت کا تصور‘‘(مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا مطالعہ بہت مفید ہے۔