Home ≫ ur ≫ Surah Al Araf ≫ ayat 40 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ(40)
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا:بیشک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔} اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والوں اور ان سے تکبر کرنے والوں کی سزا جہنم میں ہمیشہ رہنا بیان ہوئی اوراس آیت میں اس ہمیشگی کی کیفیت کا بیان ہے ،پہلی یہ کہ ان کیلئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے۔
کفار کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جانے کے معنی:
اس کا ایک معنی یہ ہے کہ کفار کے اعمال اور ان کی ارواح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے کیونکہ اُن کے اعمال و ارواح دونوں خبیث ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ کفار کی ارواح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور مؤمنین کی ارواح کے لئے کھولے جاتے ہیں۔ ابن جُرَیْج نے کہا کہ آسمان کے دروازے نہ کافروں کے اعمال کے لئے کھولے جائیں گے نہ ارواح کے لئے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۰، ۲ / ۹۳)
یعنی نہ زندگی میں ان کا عمل آسمان پر جاسکتا ہے نہ موت کے بعد ان کی روح جا سکتی ہے ۔
مرنے کے بعد مومن اور کافر کی روح کو آسمان کی طرف لے جانے اور مومن کی روح کے لئے آسمان کے دروازے کھلنے اور کافر کی روح کے لئے نہ کھلنے کاذکر حدیثِ پاک میں بھی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’روح نکلتے وقت میت کے پاس فرشتے آتے ہیں ، اگر وہ مومن کی روح ہے تو اس سے کہتے ہیں : اے پاک روح! پاک جسم سے نکل آ کیونکہ تونیک ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے خوش ہو جا، جنت کی خوشبو اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا مندی سے خوش ہو جا، فرشتے روح نکلنے تک یہی کہتے رہتے ہیں ، جب روح نکل آتی ہے تو اسے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں ، جب آسمان کے قریب پہنچتے ہیں تو آسمان کے فرشتے کہتے ہیں : یہ کون ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں ’’فلاں شخص کی روح ہے۔ آسمانی فرشتے کہتے ہیں ’’مرحبا، مرحبا، اے پاک روح ! پاک جسم میں رہنے والی ، تو خوش ہو کر (آسمانوں میں ) داخل ہو جا اور خوشبو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا سے خوش ہو جا، ہر آسمان پر اسے یہی کہا جاتا ہے ،حتّٰی کہ وہ روح عرش تک پہنچ جاتی ہے ۔اگر کسی برے بندے کی روح ہوتی ہے تو کہتے ہیں ’’اے ناپاک جسم کی روح! بری حالت کے ساتھ آ، گرم پانی اور پیپ کی اور اس کے ہم شکل دوسرے عذابوں کی بشارت حاصل کر۔وہ روح نکلنے تک یہی کہتے رہتے ہیں ، پھر اسے لے کر آسمان کی جانب چلتے ہیں تو اس کے لئے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا، آسمان کے فرشتے دریافت کرتے ہیں : ’’یہ کون ہے؟ روح لے جانے والے فرشتے کہتے ہیں ’’یہ فلاں شخص کی روح ہے، آسمانی فرشتے جواب دیتے ہیں ’’اس خبیث روح کو جو خبیث جسم میں تھی کوئی چیز مبارک نہ ہو، اسے ذلیل کر کے نیچے پھینک دو تو وہ اسے آسمان سے نیچے پھینک دیتے ہیں پھر وہ قبر میں لوٹ آتی ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ، ۴ / ۴۹۷، الحدیث: ۴۲۶۲)
کفار کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جانے کا دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ خیر و برکت اور رحمت کے نزول سے محروم رہتے ہیں۔ (تفسیرکبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۰، ۵ / ۲۴۰)
قرآنِ پاک میں ہے:
’’ وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ‘‘ (اعراف:۹۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اگر بستیو ں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے (عذاب میں ) گرفتار کردیا۔
{ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ : اور وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے۔} اس آیت میں ہمیشگی کی دوسری کیفیت کا بیان ہوا چنانچہ فرمایا گیا کہ کفار تب تک جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل نہ ہو جائے اور یہ بات چونکہ محال ہے تو کفار کا جنت میں داخل ہونا بھی محال ہے کیونکہ محال پر جو موقوف ہو وہ خود محال ہوتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ کفار کا جنت سے محروم رہنا قطعی ہے۔ یاد رہے کہ اس آیت میں مجرمین سے کفار مراد ہیں کیونکہ اُوپر ان کی صفت میں اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے اور ان سے تکبر کرنے کا بیان ہوچکا ہے۔