banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 45 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ یَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ كٰفِرُوْنَﭥ(45)

ترجمہ: کنزالایمان جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اورا سے کجی چاہتے ہیں اور آخرت کا انکار رکھتے ہیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اسے ٹیڑھا (کرنا ) چاہتے ہیں اور وہ آخرت کا انکارکرنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ اَلَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:جواللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔} یہاں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جہنمیوں کو ظالم قرار دیا اور ان کے اوصاف یہ بیان کئے کہ وہ دوسروں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے راستے سے روکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دین میں تبدیلی چاہتے تھے کہ دینِ الٰہی کو بدل دیں اور جو طریقہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے اس میں تغیر ڈال دیں۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۵، ۲ / ۹۵) تیسرا وہ قیامت کا انکار کرتے تھے۔

مسلمان کہلانے والے بے دین لوگوں کا انجام:

            یہاں یہ وعیدیں بطورِ خاص کافروں کے متعلق ہیں لیکن جو مسلمان کہلانے والے بھی دوسروں کو دین پر عمل کرنے سے منع کرتے ہیں اور وہ لوگ جو دین میں تحریف و تبدیلی چاہتے ہیں جیسے بے دین و ملحدلوگ جو دین میں تحریف و تغییر کی کوششیں کرتے رہتے ہیں ایسے لوگ بھی کوئی کم مجرم نہیں بلکہ وہ بھی جہنم کے مستحق ہیں۔

جنتیوں اور جہنمیوں کے باہمی مکالمے:

            یہاں آیت ِ مبارکہ میں جیسا مکالمہ بیان کیا گیا ہے جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان ایسے مکالمے قرآنِ پاک میں اور جگہ بھی مذکور ہیں چنانچہ سورۂ صافّات میں ہے:

فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ(۵۰)قَالَ قَآىٕلٌ مِّنْهُمْ اِنِّیْ كَانَ لِیْ قَرِیْنٌۙ(۵۱) یَّقُوْلُ اَىٕنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِیْنَ(۵۲)ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِیْنُوْنَ(۵۳)قَالَ هَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ(۵۴)فَاطَّلَعَ فَرَاٰهُ فِیْ سَوَآءِ الْجَحِیْمِ(۵۵)قَالَ تَاللّٰهِ اِنْ كِدْتَّ لَتُرْدِیْنِۙ(۵۶) وَ لَوْ لَا نِعْمَةُ رَبِّیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ‘‘(صافات۵۰تا۵۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جنتی آپس میں سوال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے۔ان میں سے ایک کہنے والاکہے گا:بیشک میرا ایک ساتھی تھا۔مجھ سے کہا کرتاتھا : کیا تم (قیامت کی) تصدیق کرنے والوں میں سے ہو؟ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہمیں جزا سزا دی جائے گی؟جنتی (دوسرے جنتیوں سے) کہے گا: کیا تم(جہنم میں ) جھانک کر دیکھو گے؟ تو وہ جھانکے گا تو (اپنے) اس (دنیا کے) ساتھی کو بھڑکتی آگ کے درمیان دیکھے گا۔وہ جنتی کہے گا: خدا کی قسم، قریب تھا کہ تو ضرور مجھے (بھی گمراہ کرکے) ہلاک کردیتا اور اگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو ضرور میں بھی (عذاب میں ) پیش کئے جانے والوں میں سے ہوتا۔

             نیز سورۂ مدثر میں ہے:

’’ كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌۙ(۳۸) اِلَّاۤ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِؕۛ(۳۹) فِیْ جَنّٰتٍﰈ یَتَسَآءَلُوْنَۙ(۴۰) عَنِ الْمُجْرِمِیْنَۙ(۴۱) مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ(۴۲)قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَۙ(۴۳) وَ لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَۙ(۴۴) وَ كُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآىٕضِیْنَۙ(۴۵) وَ كُنَّا نُكَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِۙ(۴۶) حَتّٰۤى اَتٰىنَا الْیَقِیْنُ‘‘ (مدثر۳۸تا۴۷)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہر جان اپنے کمائے ہوئے اعمال میں گروی رکھی ہے مگر دائیں طرف والے،باغوں میں ہوں گے ،وہ پوچھ رہے ہوں گے مجرموں سے،کون سی چیزتمہیں دوزخ میں لے گئی؟وہ کہیں گے:ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور بیہودہ فکر والوں کے ساتھ بیہودہ باتیں سوچتے تھے اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلاتے رہے یہاں تک کہ ہمیں موت آئی۔

کفر اور بد عملی کی بڑی وجہ:

            آیت کے آخر میں فرمایا کہ وہ آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفر و عناد اور بد عملی کی بڑی وجہ قیامت کا انکار یا اسے بھلانا ہے اگر بندے کے دل میں قیامت کا خوف ہو تو جرم کرنے کی ہمت ہی نہ کرے ۔اسی لئے بزرگانِ دین نے روزانہ کچھ وقت موت، قبر اور قیامت کے متعلق غور و فکر کرنے کا مقرر فرمایا ہے کہ یہ فکر دل کی دنیا بدل دیتی ہے اور ایسی ہی سوچ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ’’لمحہ بھر غورو فکر کرناپوری رات قیام کرنے سے بہتر ہے۔(مصنف ابن ابی شیعبہ، کتاب الزھد ،کلام الحسن البصری ،۸ / ۲۵۸ ،الحدیث:۳۷)