banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 82 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

وَ مَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْۚ-اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ(82)

ترجمہ: کنزالایمان اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہنا کہ ان کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور ان کی قوم کا اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ انہوں نے کہا: ان کو اپنی بستی سے نکال دو۔ یہ لوگ بڑے پاک بنتے پھرتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{ وَ مَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖ:اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سمجھانے پر ان کی قوم کے لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی پیروی کرنے والوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو بڑی پاکیزگی چاہتے ہیں۔ یعنی گویا پاکیزگی ان کیلئے باعث ِ اِستہزاء چیز بن گئی اور اس قوم کا ذوق اتنا خراب ہوگیا تھا کہ انہوں نے اس صفت ِمدح کو عیب قرار دیا۔

 اچھے عمل کو برا اور برے عمل کو اچھا سمجھنے کی اوندھی سوچ:

            اس سے معلوم ہوا کہ جب کسی کے دن برے آتے ہیں تو اسے اوندھی سوجھتی ہے کہ اسے اچھی چیزیں بری لگنا اور بری چیزیں اچھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ آج کل کے حالات دیکھے جائیں تو ہمارے معاشرے میں بھی لوگوں کی ایک تعداد ایسی ہے جن میں یہ وبا عام نظر آتی ہے اور یہ لوگ جب کسی کو دین کے احکام پر عمل کرتا دیکھتے ہیں تو ان کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اور ا س خرابی کے باعث داڑھی رکھنے کو برا اور نہ رکھنے کو اچھا سمجھتے ہیں۔ داڑھی والے کو حقارت کی نظر سے اور داڑھی منڈے کو پسند کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ داڑھی والے کے ساتھ رشتہ کرنے کو باعث عار اور بغیر داڑھی والے سے رشتہ کرنے کو قابلِ فخر تصور کرتے ہیں۔ نماز روزے کی پابندی اور سنتوں پر عمل کرنے والے انہیں اپنی نگاہوں میں عجیب نظر آتے اور گانے باجوں ، فلموں ڈراموں میں مشغول لوگ زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہوتے نظر آتے ہیں۔ عورتوں کا پردہ کرنا فرسودہ عمل اور بے پردہ ہونا جدید دور کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ صرف اپنی بیوی کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کو تنگ ذہنی اور غیر عورتوں سے ناجائز تعلقات کو روشن خیالی کہتے ہیں۔ اپنی عورتوں کے غیر مردوں سے دور رہنے کو اپنی بے عزتی جبکہ ان کا غیر مردوں سے ملنے اور ان سے تعلقات قائم کرنے کو اپنی عزت تصور کرتے ہیں۔ حرام کمائی کو اپنا حق ا ور ضرورت جبکہ حلال کمائی کواپنی حق تلفی قرار دیتے ہیں۔ امانت و دیانت داری اور سچائی کو بھولا پن جبکہ خیانت، جھوٹ ،دھوکہ اور فریب کاری کو اپنی چالاکی اور مہارت سمجھتے ہیں۔ سرِ دست یہ چند مثالیں پیش کی ہیں ورنہ تھوڑ اسا غور کریں تو اچھے کام کو برا اور برے کام کو اچھا سمجھنے کی ہزاروں مثالیں سامنے آ جائیں گی ۔اے کاش ! مسلمان اپنے رب تعالیٰ کے اس فرمان پر غور کریں اور اپنی روش سے باز آ جائیں ،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

’’ اَفَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًاؕ-فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ﳲ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ‘‘ (فاطر:۸)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو کیا وہ شخص جس کیلئے اس کا برا عمل خوبصورت بنادیا گیا تو وہ اسے اچھا (ہی) سمجھتا ہے (کیا وہ ہدایت یافتہ آدمی جیسا ہوسکتا ہے؟) تو بیشک اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے اور راہ دکھاتا ہے جسے چاہتا ہے، تو حسرتوں کی وجہ سے ان پر تمہاری جان نہ چلی جائے۔ بیشک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔

کسی جگہ نیک بندوں کاموجود ہونا امن کاذریعہ ہے:

            کفار کے نبی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے صحابہ کو وہاں سے نکالنے کی بات سے  یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی بستی میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے بندوں کا رہنا اس جگہ امن رہنے کا ذریعہ ہے اور ان کا وہاں سے نکل جانا عذاب کا ذریعہ۔ وہ لوگ خود انہیں نکال کر اپنے عذاب کا سامان کرنا چاہتے تھے۔