banner image

Home ur Surah Al Araf ayat 93 Translation Tafsir

اَلْاَعْرَاف

Al Araf

HR Background

فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْۚ-فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ(93)

ترجمہ: کنزالایمان تو شعیب نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیونکر غم کروں کافروں کا۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو شعیب نے ان سے منہ پھیرلیا اور فرمایا، اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دئیے اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی تو کافر قوم پر میں کیسے غم کروں ؟

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ قَالَ:اورفرمایا۔} جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب آیا تو آپ نے ان سے منہ پھیر لیا اور قوم کی ہلاکت کے بعد جب آپ ان کی بے جان نعشوں پر گزرے تو ان سے فرمایا ’’ اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دئیے اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم کسی طرح ایمان نہ لائے ۔( صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۴، ۲ / ۶۹۴، ملخصاً)

مردے سنتے ہیں :

کفار کی ہلاکت کے بعد حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے جو کلام فرمایا ا س سے معلوم ہو اکہ مردے سنتے ہیں۔ حضرت قتادہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو سنایا، بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم کو سنایا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی قوم کو سنایا۔(تفسیر ابن ابی حاتم، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۳، ۵ / ۱۵۲۴)

مُردوں کے سننے کی قوت سے متعلق بخاری شریف میں ہے’’جب ابوجہل وغیرہ کفار کو بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا تو اس وقت رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان سے خطاب فرمایا ’’فَهَلْ وَجَدْتُّمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا‘‘ توکیا تم نے اس وعدے کو سچا پایا جو تم سے تمہارے رب نے کیا تھا؟حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ ایسے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں کہ جن کے اندر روحیں نہیں۔ ارشاد فرمایا ’’وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ مَا اَنْتُمْ بِاَسْمَعَ لِمَا اَقُولُ مِنْہُمْ‘‘اس ذات کی قسم ! جس کے قبضے میں محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی جان ہے جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے تم ان سے زیادہ نہیں سنتے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب قتل ابی جہل، ۳ / ۱۱، الحدیث: ۳۹۷۶)

سابقہ اُمتوں کے احوال بیان کرنے سے مقصود:

پچھلی امتوں کے احوال اور ان پر آنے والے عذابات کے بیان سے مقصود صرف ان کی داستانیں سنانا نہیں بلکہ مقصودنبی آخر الزّمان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو جھنجوڑنا ہے۔ اِن کے سامنے اُن قوموں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ جن سے عرب کے لوگ واقف تھے ،جن کے کھنڈرات عربوں کے تجارتی قافلوں کی گزرگاہوں کے ارد گرد واقع تھے ،جن کی خوشحالی، بالا دستی اور غلبہ و اقتدار کی بڑی شہرت تھی اور پھر انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نافرمانی کے باعث ان کی تباہی و بربادی کے دِلخراش واقعات ہوئے جوسب کو معلوم تھے، یہ واقعات اور حالات بتا کر انہیں آگاہ کیا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی انہیں تعلیمات کو کامل اور مکمل صورت میں تمہارے پاس لائے ہیں جو پہلے نبیوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی اپنی امتوں کو اپنے زمانے میں دیں ، اگر تم نے بھی انکار کیا اور سرکشی کی رَوِش اختیار کی تو یاد رکھو تمہارا انجام بھی و ہی ہو گاجو پہلے منکرین کا ہوتا آیا ہے۔ دونوں جہاں کی سعادت اور سلامتی مطلوب ہے تو رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو اور ان کا دامنِ رحمت مضبوطی سے تھا م لو، تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں سربلندی نصیب ہو جائے گی۔