Home ≫ ur ≫ Surah Al Asr ≫ ayat 1 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ الْعَصْرِ(1)اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ(2)اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ﳔ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(3)
تفسیر: صراط الجنان
{وَالْعَصْرِ: زمانے کی قسم۔} اس آیت
میں مذکور لفظ’’ عصر‘‘ کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ
ہے کہ اس سے زمانہ مراد ہے اور زمانہ چونکہ عجائبات پر مشتمل ہے اور اس
میں احوال کا تبدیل ہونا دیکھنے والے کے لئے عبرت کا سبب ہوتا ہے
اور یہ چیزیں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت و
حکمت اور اس کی وحدانیّت پر دلالت کرتی ہیں اس لئے ہوسکتا ہے کہ
یہاں آیت میں زمانے کی قسم مراد ہو۔دوسرا قول یہ ہے کہ ’’
عصر‘‘ اس وقت کو بھی کہتے ہیں جو سورج غروب سے پہلے ہوتا ہے، اس لئے
ہوسکتا ہے کہ نقصان اٹھانے والے کے بارے میں اس وقت کی قسم یاد فرمائی
گئی ہو جیسا کہ نفع اٹھانے والے کے بارے میں ’’ ضُحٰی‘‘ یعنی چاشت کے وقت کی قسم
ذکر فرمائی گئی ۔ تیسرا قول یہ ہے کہ’’ عصر ‘‘سے نمازِ عصر مراد ہوسکتی ہے جو کہ دن کی
عبادتوں میں سب سے آخری عبادت ہے اور اس کی فضیلت کی وجہ سے یہاں اس کی قسم ارشاد
فرمائی گئی ہو۔چوتھا قول یہ ہے اور اسی کی طرف دل جھکتا ہے کہ
یہاں زمانے سے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا مخصوص زمانہ مراد ہے
جو کہ بڑی خیر و برکت کا زمانہ ہے،تو جس طرح اللّٰہ تعالیٰ
نے ’’لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ‘‘ میں حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے
مَسکن و مکان کی قسم یاد فرمائی ہے اور جس طرح ’’لَعَمْرُكَ‘‘فرما کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ
سَلَّمَ کی
عمر شریف کی قسم یاد فرمائی تو اسی طرح یہاں ’’وَالْعَصْرِ ‘‘ فرما کر اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے مقدس زمانے کی قسم
ارشاد فرمائی۔اس سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا
زمانہ سب زمانوں سے افضل ،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا
شہر سب شہروں سے افضل اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی عمر مبارک سب کی عمروں
سے افضل ہے۔( خازن، العصر، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۰۵، صاوی، والعصر، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۲۴۱۹، ملتقطاً)
اعلیٰ
حضرت رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
وہ خدانے ہے مرتبہ تجھ کو
دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلامِ مجید نے کھائی
شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم
{اِنَّ الْاِنْسَانَ
لَفِیْ خُسْرٍ:
بیشک آدمی ضرور خسارے میں ہے۔} اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ
یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے قسم ذکر کرکے
فرمایا کہ بیشک آدمی ضرور نقصان میں ہے کہ اس کی عمر جو اس کا سرمایہ اور اصل
پُونجی ہے وہ ہر دم کم ہو رہی ہے مگر جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام
کئے اور ایک دوسرے کو ایمان اور نیک عمل کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو ان تکلیفوں اور
مشقتوں پر صبر کرنے کی وصیت کی جو دین کی راہ میں انہیں پیش آئیں تو یہ لوگ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے خسارے میں نہیں بلکہ نفع پانے والے ہیں کیونکہ
ان کی جتنی عمر گزری وہ نیکی اور طاعت میں گزری ہے۔( روح البیان، العصر، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۱۰ / ۵۰۵-۵۰۶، خازن، العصر، تحت الآیۃ: ۲-۳، ۴ / ۴۰۵، ملتقطاً)
اسی طرح ایک اور مقام
پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا
ہے: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ
وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً
لَّنْ تَبُوْرَۙ(۲۹) لِیُوَفِّیَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَ
یَزِیْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖؕ-اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ‘‘(فاطر:۲۹،۳۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ لوگ جو اللّٰہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور
ہمارے دئیےہوئے رزق میں سے پوشیدہ اوراعلانیہ کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں وہ
ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو ہرگز تباہ نہیں ہوگی ۔تاکہ اللّٰہ انہیں ان کے ثواب بھرپور دے اور اپنے فضل سے
اور زیادہ عطا کرے بیشک وہ بخشنے والا، قدرفرمانے والا ہے۔
سورہِ عصر کی آیت
نمبر2اور 3سے حاصل ہونے والی معلومات:
ان آیات سے3 باتیں معلوم
ہوئیں :
(1)…انسان کی زندگی ا س کا سب
سے قیمتی سرمایہ ہے اور اس سرمائے سے وہ اُسی صورت میں نفع اٹھا سکتا ہے
جب وہ اِسے اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و
فرمانبرداری میں خرچ کرے اوراگر وہ یہ سرمایہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے، اس کی نافرمانی کرنے اور گناہوں میں خرچ
کرتا رہا تو اسے کوئی نفع نہ ہو گا بلکہ بہت بڑا نقصان اٹھا ئے گا ،لہٰذا ہر انسان
کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ
کی اطاعت و عبادت میں مصروف ہوجائے ۔
(2)…انسان کی زندگی کا جو حصہ
اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت میں گزرے
وہ سب سے بہتر ہے۔
(3)…دنیا سے اِعراض کرنا اور
آخرت کی طلب میں اور ا س سے محبت کرنے میں مشغول ہونا
انسان کے لئے سعادت کا باعث ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ
ارشاد فرماتا ہے:’’وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ
مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا‘‘(بنی اسرائیل:۱۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو آخرت چاہتا
ہے اوراس کیلئےایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہوتو یہی
وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔
سورہِ عصر کی آیت
نمبر3سے معلوم ہونے والے مسائل:
نور العرفان
میں ہے کہ اس آیت سے کئی مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ پہلے
خود نیک بنے، پھر دوسروں کو ہدایت کرے جیسا کہ آیت میں ترتیب سے بیان
کیا گیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ ہمیشہ تبلیغ کرے جیسا کہ وَ تَوَاصَوْاکے اِطلاق سے معلوم
ہوا ۔ تیسرے یہ کہ ہر مسلمان کو مُبَلِّغ ہونا چاہیے، جسے جو
مسئلہ صحیح طور پر معلوم ہو،وہ لوگوں کو بتا دے، صرف علما پر تبلیغ نہیں ،
جیسا کہ وَ
تَوَاصَوْا کے فاعل
کے عموم سے پتہ لگا ۔چوتھے یہ کہ ہر حال میں تبلیغ کرے، صرف جلسہ
یا اسٹیج پر مَوقوف نہ ہو ۔ پانچویں یہ کہ نماز روزے کی طرح تبلیغ بھی
ضروری ہے ۔چھٹے یہ کہ عوام دل و زبان سے اورعلماء زبان و قلم سے جبکہ
حُکّام زورو طاقت سے تبلیغ کریں اور اصل یہ کہ ہر کوئی اپنی حسب ِ
اِستطاعت نیکی کی دعوت عام کرنے کی کوشش کرے۔