banner image

Home ur Surah Al Balad ayat 14 Translation Tafsir

اَلْبَـلَد

Al Balad

HR Background

فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ(11)وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُﭤ(12)فَكُّ رَقَبَةٍ(13)اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍ(14)یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَةٍ(15)اَوْ مِسْكِیْنًا ذَا مَتْرَبَةٍﭤ(16)

ترجمہ: کنزالایمان پھر بے تأمُّل گھاٹی میں نہ کودا۔ اور تو نے کیا جانا وہ گھاٹی کیا ہے۔ کسی بندے کی گردن چھڑانا۔ یا بھوک کے دن کھانا دینا۔ رشتہ دار یتیم کو۔ یا خاک نشین مسکین کو۔ ترجمہ: کنزالعرفان پھر بغیر سوچے سمجھے کیوں نہ گھاٹی میں کود پڑا ۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟۔ کسی بندے کی گردن چھڑانا۔ یا بھوک کے دن میں کھانا دینا۔ رشتہ دار یتیم کو۔ یا خاک نشین مسکین کو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ٘: پھر بغیر سوچے سمجھے کیوں  نہ گھاٹی میں  کود پڑا۔} یعنی جب اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتیں  ظاہر اوروافر ہیں  تو ا س پر لازم تھا کہ وہ ان نعمتوں  کا شکر ادا کرے لیکن ا س نے نیک اعمال کر کے ان جلیل اور عظیم نعمتوں  کا شکر ادا نہ کیا۔ یہاں  نیک اعمال کرنے کو گھاٹی میں  کودنے سے ا س مناسبت کی وجہ سے تعبیر کیا گیا کہ جس طرح گھاٹی میں  چلنا اس پر دشوار ہے اسی طرح نیکیوں  کے راستے پر چلنا نفس پر دشوار ہے۔( ابوسعود، البلد، تحت الآیۃ: ۱۱، ۵ / ۸۷۴، ملتقطاً)

{وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُ: اور تجھے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟} اس آیت اور اس کے بعد والی 4آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے اور اس میں  کودنا کیا ہے،وہ گھاٹی اور ا س میں  کودنا یہ ہے(1) کسی بندے کی گردن غلامی سے چھڑانا۔ یہ عمل خواہ اس طرح ہو کہ کسی غلام کو آزاد کردے یا اس طرح ہو کہ مُکاتَب غلام کو اتنا مال دیدے جس سے وہ آزادی حاصل کرسکے یا کسی غلام کو آزاد کرانے میں  مدد کرے یا کسی قیدی یا قرض دار کو رہا کرانے میں  ان کی مدد کرے ۔نیزاس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں  کہ نیک اعمال اختیار کرکے اپنی گردن آخرت کے عذاب سے چھڑائے۔(2)قحط اور تنگی کے دن رشتہ دار یتیم کو یا خاک نشین مسکین کو کھانا دیناجو کہ انتہائی تنگ دست اور مصیبت زدہ ہو، نہ اس کے پاس اوڑھنے کے لئے کچھ ہو اور نہ بچھانے کے لئے کچھ ہو، کیونکہ قحط کے دنوں  میں  مال نکالنا نفس پر بہت شاق اور اجر ِعظیم ملنے کاسبب ہوتا ہے۔(روح البیان،البلد،تحت الآیۃ:۱۲-۱۶،۱۰ / ۴۳۷-۴۳۸، خازن،البلد،تحت الآیۃ:۱۲-۱۶،۴ / ۳۸۰-۳۸۱،ملتقطاً)

غلام آزاد کرنے یا آزادی میں  ا س کی مدد کرنے کے فضائل:

            غلام آزاد کرنے یا آزادی میں  ا س کی مدد کرنے کی بہت فضیلت ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کر دیا تو اللّٰہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضْوْ کے بدلے غلام آزاد کرنے والے کا عضْوْ جہنم سے آزاد کر دے گا۔( بخاری، کتاب العتق، باب فی العتق وفضلہ، ۲ / ۱۵۰، الحدیث: ۲۵۱۷)

            اورحضرت معاذ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’اے معاذ! کوئی چیز اللّٰہ تعالیٰ نے غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسند یدہ روئے زمین پر پیدا نہیں  کی۔( دارقطنی، کتاب الطلاق والخلع والایلاء وغیرہ، ۴ / ۴۰، الحدیث: ۳۹۳۹)

            اورحضرت سمرہ بن جندب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’افضل صدقہ یہ ہے کہ گردن چھڑانے میں  سفارش کی جائے۔( شعب الایمان، الثالث والخمسون من شعب الایمان... الخ، ۶ / ۱۲۴، الحدیث: ۷۶۸۳)

 بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانے کے فضائل:

            بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانے کی بہت فضیلت ہے،چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، کہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے، اللّٰہ تعالیٰ اُسے جنت کے پھل کھلائے گا اور جو مسلمان کسی پیاسے مسلمان کوپانی پلائے گا، اللّٰہ تعالیٰ اُسے رحیقِ مختوم (یعنی جنت کی سر بند شراب) پلائے گا۔( ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، ۱۸-باب، ۴ / ۲۰۴، الحدیث: ۲۴۵۷)

            اورحضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مغفرت لازم کر دینے والی چیزوں  میں  سے بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانا ہے۔( مستدرک، کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ البلد، اطعام المسلم السغبان... الخ، ۳ / ۳۷۲، الحدیث: ۳۹۹۰)

یتیم کی کفالت ا ور اس کے ساتھ احسان کرنے کے فضائل:

            یتیم کی کفالت کرنے ، ا س کے ساتھ احسان کرنے اور اسے کھانا کھلانے کی بہت فضیلت ہے ،چنانچہ حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص یتیم کی کفالت کرے وہ یتیم اسی گھر کا ہو یا غیر کا، میں  اور وہ دونوں  جنت میں  اس طرح ہوں  گے۔ حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں  انگلیوں  کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کیا۔( بخاری ، کتاب الطلاق ، باب اللعان ، ۳ / ۴۹۷ ، الحدیث: ۵۳۰۴ ، مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب الاحسان الی الارملۃ والمسکین والیتیم، ص۱۵۹۲، الحدیث: ۴۲(۲۹۸۳))

            اورحضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں  میں  سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں  کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ احسان کیا جاتا ہو اور مسلمانوں  میں  سب سے برا وہ گھر ہے، جس میں  یتیم ہو اور اس کے ساتھ براسلوک کیا جاتاہو۔( ابن ماجہ، کتاب الادب، باب حق الیتیم، ۴ / ۱۹۳، الحدیث: ۳۶۷۹)

            اورحضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص یتیم کو اپنے کھانے پینے میں  شریک کرے، اللّٰہ تعالیٰ اس کے لیے ضرور جنت واجب کردے گا مگر جبکہ ایسا گناہ کیا ہو جس کی مغفرت نہ ہو ۔( مشکوۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب الشفقۃ والرحمۃ علی الخلق، الفصل الثانی، ۲ / ۲۱۴، الحدیث: ۴۹۷۵)

مسکین کی مدد کرنے اور ا سے کھانا کھلانے کے فضائل:

            مسکین کی مدد کرنے اور ا س کو کھانا کھلانے کی بہت فضیلت ہے ،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ یتیموں  اور مسکینوں  کی مدد کرنے والا جہاد میں  سَعی کرنے والے اور بے تھکے مسلسل شب بیداری کرنے والے اور ہمیشہ روزہ رکھنے والے کی مثل ہے۔( مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب الاحسان الی الارملۃ والمسکین والیتیم، ص۱۵۹۲، الحدیث: ۴۱(۲۹۸۲))

            اور حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ایک لقمہ روٹی اور ایک مُٹھی خرما اور اس کی مثل کوئی اور چیز جس سے مسکین کو نفع پہنچے۔ اُن کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ تین شخصوں  کو جنت میں  داخل فرماتا ہے۔ (1)صاحب ِخانہ کوجس نے حکم دیا۔ (2)بیوی کو جو کہ اسے تیار کرتی ہے۔ (3)خادم کو جو کہ مسکین کو دے کر آتا ہے، پھر حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا: حمد ہے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے لیے جس نے ہمارے خادموں  کو بھی نہ چھوڑا۔( معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ: محمد، ۴ / ۸۹، الحدیث: ۵۳۰۹)