Home ≫ ur ≫ Surah Al Balad ≫ ayat 9 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَیْنَیْنِ(8)وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیْنِ(9)وَ هَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ(10)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ عَیْنَیْنِ: کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہ بنائیں ۔} یہاں سے اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی چندنعمتوں کا ذکر فرمایا ہے تاکہ اس کافرکو عبرت حاصل کرنے کا موقع ملے،چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا ہم نے اس کافر کی دو آنکھیں نہ بنائیں جن سے وہ دیکھتا ہے اور کیاہم نے اسے زبان نہ دی جس سے وہ بولتا ہے اور اپنے دِل کی بات بیان میں لاتا ہے اور کیا ہم نے اسے دو ہونٹ نہ دئیے جن سے وہ اپنے منہ کو بند کرتا ہے اور بات کرنے ، کھانے پینے اورپھونکنے میں اُن سے کام لیتا ہے اور کیا ہم نے اسے ماں کے دودھ سے بھرے پستانوں کی راہ نہ بتائی کہ پیدا ہونے کے بعد وہ اُن سے دودھ پیتا اور غذا حاصل کرتا رہا ۔( خازن ، البلد ، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۴ / ۳۸۰، مدارک، البلد، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ص۱۳۵۰، جمل، البلد، تحت الآیۃ: ۸-۱۰، ۸ / ۳۲۵-۳۲۶، ملتقطاً)
زبان کی اہمیت اور اس کی حفاظت کی ترغیب:
اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو زبان عطا کی اور اس میں گفتگو کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کی اور اس نعمت کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجا سکتا ہے کہ ا س کے ذریعے انسان کلام کرتا اور اپنے دل کی بات بیان کرتا ہے،اس کے ذریعے معاملات سر انجام دیتا اور کھانے والی چیزوں کے ذ ائقے معلوم کرتا ہے اوراگر انسان کی زبان نہ ہوتی یا زبان تو ہوتی لیکن اس میں گفتگو کرنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو انسان کو اپنے معاملات سر انجام دینے کے لئے اشارے اور تحریر کا سہارا لینا پڑتا اور اس سے جو دشواری ہوتی اس کا اندازہ گفتگو کرنے کی صلاحیت سے محروم لوگوں کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے اورا س نعمت پر اللّٰہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’اس آیت میں یہ تنبیہ بھی ہے کہ اچھی اور نیک باتوں کے علاوہ انسان کم کلام کیا کرے اور فضول و بے فائدہ کلام نہ کرے اور اللّٰہ تعالیٰ نے جو زبان کو منہ کے اندر رکھا اور ا س کے آگے دو ایسے ہونٹ بنا دئیے جنہیں کھولے بغیر کلام ممکن نہیں ، اس میں یہی حکمت ہے تاکہ بندہ اپنے ہونٹوں کو بند کر کے ان سے کلام نہ کر سکنے پر مدد حاصل کرے۔( روح البیان، البلد، تحت الآیۃ: ۹، ۱۰ / ۴۳۶)
اوربکثرت اَحادیث میں زبان کی حفاظت کرنے کی ترغیب اور خاموش رہنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے، یہاں ان میں سے 5اَحادیث ملاحظہ ہوں ،چنانچہ
(1)… حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوکرعرض کی: نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ارشاد فرمایا’’ اپنی زبان کو قابو میں رکھو اور تمہیں تمہارا گھر کافی رہے اور اپنی خطائوں پر رؤ و۔( ترمذی ، کتاب الزہد ، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۲، الحدیث: ۲۴۱۴، مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم، الفصل الثانی، ۲ / ۱۹۳، الحدیث: ۴۸۳۷)
(2)… حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب انسان صبح کرتا ہے تو سارے اَعضاء زبان کی خوشامد کرتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں ’’ ہمارے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈر کہ ہم تیرے ساتھ ہیں ، تو سیدھی رہے گی تو ہم سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگی تو ہم ٹیڑھے ہوں گے۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۳، الحدیث: ۲۴۱۵)
(3)… حضرت سفیان بن عبداللّٰہ ثقفی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ میں نے عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، جن چیزوں کا آپ مجھ پر خو ف کرتے ہیں ان میں زیادہ خطرناک کیا چیز ہے؟تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا :یہ (یعنی تمہاری زبان سب سے زیادہ خطرناک ہے)۔( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی حفظ اللسان، ۴ / ۱۸۴، الحدیث: ۲۴۱۸)
(4)… حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے ر وایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو خاموش رہا نجات پاگیا ۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہما، ۲ / ۵۵۱، الحدیث: ۶۴۹۱)
(5)… حضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’انسان کا خاموشی پر ثابت رہنا ساٹھ برس کی عبادت سے افضل ہے۔( مشکاۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب حفظ اللسان والغیبۃ والشّتم، الفصل الثالث، ۲ / ۱۹۷، الحدیث: ۴۸۶۵)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں زبان جیسی عظیم نعمت کی اہمیت کو سمجھنے ،اس نعمت کے ملنے پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے ،فضول اور بیکار باتوں اور ناجائز کلام سے اس کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
{وَ هَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ: اورہم نے اسے دو راستے دکھائے۔} یہاں آیت میں ’’ نَجْدَیْن‘‘ کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ اس سے ماں کی دونوں چھاتیاں مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے اچھا ئی اور برائی کے دو راستے مراد ہیں جو جنت یا جہنم تک پہنچاتے ہیں ۔ (مدارک، البلد، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۳۵۰)