Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 106 ≫ Translation ≫ Tafsir
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ اَوْ مِثْلِهَاؕ-اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(106)
تفسیر: صراط الجنان
{مَا نَنْسَخْ: ہم جو منسوخ فرمائیں۔} نسخ کا معنیٰ ہے: سابقہ حکم کو کسی بعد والی دلیلِ شرعی سے اٹھا دینا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۰۶، ۱ / ۷۷) اور یہ حقیقت میں سابقہ حکم کی مدت کی انتہاء کا بیان ہوتا ہے۔ اس آیت کاشان نزول یہ ہے کہ قرآن کریم نے گزشتہ شریعتوں اور کتابوں کو منسوخ فرمایا تو کفار کو بڑی وحشت ہوئی اور انہوں نے اس پر اعتراضات کئے، اس پر یہ آیت ِ مبارکہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ منسوخ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ناسِخْ بھی، دونوں عین حکمت ہیں اور ناسخ کبھی منسوخ سے زیادہ آسان اور نفع بخش ہوتا ہے لہٰذا قدرت ِالہٰی پر یقین رکھنے والے کو اس میں تَرَدُّد کی کوئی گنجائش نہیں۔ کائنات میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دن سے رات کو، گرما سے سرما کو ،جوانی سے بچپن کو، بیماری سے تندرستی کو ،بہار سے خزاں کو منسوخ فرماتا ہے۔یہ تمام نسخ و تبدیل اس کی قدرت کے دلائل ہیں تو ایک آیت اور ایک حکم کے منسوخ ہونے میں کیا تعجب ؟ نسخ حقیقت میں سابقہ حکم کی مدت کا بیا ن ہو تا ہے کہ وہ حکم اس مدت کے لیے تھا اور اب وہ مدت پوری ہوگئی۔ صرف یہ تھا کہ ہمیں وہ مدت معلوم نہ تھی اور ناسخ کے آنے سے معلوم ہوگئی۔ کفار کا اعتراض تو جہالت و ناسمجھی کی وجہ سے تھا لیکن اہلِ کتاب کو تو کسی بھی صورت یہ اعتراض نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت کے بہت سے احکام تو وہ بھی منسوخ مانتے ہیں جیسے بہن بھائی کا آپس میں نکاح، یونہی یہودیوں سے پہلے ہفتہ کے دن دنیوی کام حرام نہ تھے ،ان پر حرام ہوئے، نیز توریت میں ہے کہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی امت کے لئے تمام جانور حلال تھے جبکہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر بہت سے حرام کردیئے گئے۔ ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے نسخ کا انکار کس طرح ممکن ہے۔
(1)…جس طرح کوئی آیت دوسری آیت سے منسوخ ہوتی ہے اسی طرح حدیث ِمتواتر سے بھی آیت منسوخ ہوتی ہے۔
(2)… کبھی صرف تلاوت منسوخ ہوتی ہے اورکبھی صرف حکم منسوخ ہوتاہے اور کبھی تلاوت و حکم دونوں منسوخ ہوتے ہیں۔بیہقی شریف میں ہے کہ ایک انصاری صحابی رات کو تہجد کے لیے اٹھے اور سورۂ فاتحہ کے بعد جو سورت ہمیشہ پڑھا کرتے تھے اس کو پڑھنا چاہا لیکن وہ بالکل یاد نہ آئی اور سوائے بسم اللہ کے کچھ نہ پڑھ سکے ۔صبح کو دوسرے ا صحاب سے اس کا ذکر کیا توان حضرات نے فرمایا :ہمارا بھی یہی حال ہے، وہ سورت ہمیں بھی یاد تھی اور اب ہمارے حافظہ میں بھی نہ رہی۔ سب نے بارگاہِ رسالت میں واقعہ عرض کیا تو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: آج رات وہ سورت اٹھالی گئی۔ اس کے حکم و تلاوت دونوں منسوخ ہوئے جن کاغذوں پر وہ لکھی گئی تھی ان پر نقش تک باقی نہ رہے۔(دلائل النبوہ للبیہقی، باب ما جاء فی تألیف القرآن۔۔۔ الخ، ۷ / ۱۵۷، ملخصاً)
{نَاْتِ بِخَیْرٍ: ہم بہتر لے آئیں گے۔} فرمایا کہ ہم کسی آیت کو منسوخ فرمادیں یا بھلادیں تو اس کی جگہ زیادہ آساناور زیادہ ثواب والا یا کم از کم پہلے والے حکم کے برابر حکم لے آئیں گے۔پہلے سے زیادہ سہولت والے کی مثال ہے جیسے پہلے دس گنا تک کے لشکر سے جہاد کا حکم تھا پھر صرف دو گنا تک کے لشکر سے جہاد میں ڈٹے رہنے کا حکم نازل ہوا۔ زیادہ ثواب کی مثال ہے جیسے پہلے ایک قول کے مطابق روزے کی طاقت رکھنے والے کو بھی فدیہ دینے کی اجازت تھی لیکن بعد میں اس پر روزے کا حکم ہی متعین کردیا جو فدیہ سے زیادہ ثواب والا حکم ہے۔ سہولت میں برابر کے حکم کی مثال ہے جیسے بیت المقدس سے پھیر کر خانہ کعبہ کو قبلہ بنادیا گیا حالانکہ دونوں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے میں برابر درجے کی سہولت ہے۔