Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 111 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰىؕ-تِلْكَ اَمَانِیُّهُمْؕ-قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(111)
تفسیر: صراط الجنان
{لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ: ہر گز جنت میں داخل نہ ہوں گے۔}یہودی مسلمانوں سے کہتے تھے کہ جنت میں صرف یہودی جائیں گے اور عیسائی کہتے تھے کہ صرف وہی جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ گفتگو مسلمانوں کو بہکانے کے لئے تھی، ان کی تردید میں یہ آیت ِکریمہ نازل ہوئی، جس میں فرمایا گیا کہ ان کی یہ بات ان کی اپنی رائے سے ہے، توریت و انجیل میں ایسا کچھ نہیں فرمایا گیا،اگر وہ سچے ہیں تو اپنی اس بات پر کوئی دلیل لائیں۔
{اَمَانِیُّهُمْ: ان کی من گھڑت تمنائیں۔}بغیر کسی بنیاد کے جنت میں داخلے کے زبانی دعوے کرنا جہالت و حماقت ہے۔ ایک امید ہے جسے عربی میں ’’رَجا‘‘ کہتے ہیں اور ایک خام خیالی ہے جسے عربی میں ’’اُمْنِیَّہْ‘‘ کہتے ہیں۔ امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس موضوع پر بڑا پیاراکلام ارشاد فرمایا ہے۔ اس کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔چنانچہ آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : رجاء یعنی امیددل کی اس راحت کا نام ہے جو محبوب چیز کے انتظار سے حاصل ہوتی ہے لیکن یہ محبوب جس کی توقع کی جا رہی ہے ا س کا کوئی سبب ہونا چاہئے لہٰذا اگر اس کا انتظار اکثر اسباب کے ساتھ ہے تو اسے ’’رجا‘‘ یعنی امید کہتے ہیں اور اگر اسباب بالکل نہ ہوں یا اضطراب کے ساتھ ہوں تو اسے امید نہیں بلکہ دھوکہ اور بیوقوفی کہا جائے گا اور اگر اسباب کے ہونے یا نہ ہونے کا علم نہ ہو تو اس انتظار کو’’تمنا‘‘ کہتے ہیں۔ اہلِ دل حضرات جانتے ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دل زمین کی طرح ہے ،ایمان اس میں بیج کی حیثیت رکھتا ہے اور عبادت زمین کو الٹ پلٹ کرنے، صاف کرنے اور نہر یں کھودنے اور ان زمینوں میں پانی جاری کرنے کی طرح ہیں اور دل جو دنیا میں غرق اور ڈوبا ہوا ہے اس بنجر زمین کی طرح ہے جس میں بیج کوئی پھل نہیں لاتااور قیامت کا دن فصل کاٹنے کا دن ہے اور ہر شخص وہی کاٹے گا جو اس نے بویا ہو گا اور کھیتی کا بڑھنا ایمان کے بیج کے بغیر ناممکن ہے اور جب دل میں خباثت اور برے اخلاق ہوں تو ایمان بہت کم نفع دیتا ہے جیسے بنجر زمین میں بیج سے فصل پیدا نہیں ہوتی تو مناسب یہی ہے کہ آدمی کے مغفرت کی امید رکھنے کو کھیتی والے پر قیاس کیا جائے یعنی جو شخص اچھی زمین حاصل کرتا ہے اور اس میں عمدہ بیج ڈالتا ہے جو نہ توخراب ہوتا ہے اور نہ ہی بدبودار اور پھر اس کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے ۔ ضروریات سے مراد وقت پر پانیدینا،زمین کو کانٹوں اور گھاس پھونس نیز ان تمام خرابیوں سے پاک کرنا جو بیج کو بڑھنے سے روکتی ہیں یا خراب کر دیتی ہیں۔ تو جو یہ سب کام کرے پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کا منتظر ہو کر بیٹھ جائے کہ وہ زمین کو بجلی کی گرج اور دیگر آفات سے بچائے گا یہاں تک کہ کھیتی اپنی تکمیل کو پہنچ جائے تو اس انتظار کورجا یعنی امید کہتے ہیں اور اگر سخت زمین میں بیج ڈالے جو شور زیادہ ہو اور بلندی پر ہو جس تک پانی نہیں پہنچ سکتا اور بیج کی پروا بھی نہ کرے اورپھر اس کے کٹنے کا انتظار کرے تو اس انتظار کو بیوقوفی اور دھوکہ کہتے ہیں امید نہیں کہتے اور اگر اچھی زمین میں بیج ڈالالیکن اس میں پانی نہیں ہے اب وہ بارش کے انتظار میں ہے اور یہ ایسا وقت ہے جس میں عام طور پر بارش نہیں برستی تو اس انتظار کو تمنا کہتے ہیں ’’رجا‘‘ نہیں کہتے تو گویا رجاکا لفظ کسی ایسی پسندیدہ چیز کے انتظار پر صادق آتا ہے جس کے لئے وہ تمام اسباب تیار کر دئیے گئے ہوں جو بندے کے اختیار میں ہیں ، صرف وہی اسبا ب باقی رہ گئے جو بندے کے اختیار میں نہیں ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کی وجہ سے تمام نقصان دہ اور فاسدکرنے والے اسباب کھیتی سے دور ہو جاتے ہیں پس جب بندہ ایمان کا بیج ڈالتا ہے اورا س کو عبادات کا پانی پلاتا ہے ،دل کو بد اخلاقی کے کانٹوں سے پاک کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کا مرتے دم تک منتظر رہتا ہے، مغفرت تک پہنچانے والے اچھے خاتمے کا انتظار کرتا ہے تو یہ انتظار حقیقی رجا (امید ) ہے یہ ذاتی طور پر قابلِ تعریف ہے اوراگر ایمان کے بیج کو عبادات کا پانی نہ دیا جائے یا دل کو برے اخلاق سے ملوث چھوڑدیا جائے اور دنیاوی لذت میں منہمک ہو جائے اورپھر مغفرت کا انتظار کرے تو اس کا انتظار ایک بیوقوف اور دھوکے میں مبتلاشخص کا انتظار ہے۔نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’اَلْاَحْمَقُ مَنِ اتَّبَعَ نَفْسَہٗ ہَوَاھَا وَتَمَنّٰی عَلَی اللہِ الْاَمَانِیَّ‘‘ بے وقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات کے پیچھے لاتا ہے اور(اس کے باوجود) اللہ تعالیٰ سے تمنائیں کرتا ہے(کہ وہ بڑا کریم اور غفور و رحیم ہے،اس سے اور اس کے اعمال سے بے پرواہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اسے کوئی سزا نہیں دے گا بلکہ جنت میں داخل کر دے گا اور وہ اس کی من چاہی چیزیں اسے دے گا)۔(فیض القدیر، حرف الہمزۃ، ۲ / ۴۴۵، تحت الحدیث: ۲۰۲۵، احیاء علوم الدین، کتاب الخوف والرجاء، بیان حقیقۃ الرجاء، ۴ / ۱۷۵)