Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 129 ≫ Translation ≫ Tafsir
رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(129)
تفسیر: صراط الجنان
{رَبَّنَا وَ ابْعَثْ: اے ہمارے رب !اوربھیج۔} حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ دُعا سیدِ انبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لیے تھی۔خانہ کعبہ کی تعمیر کی عظیم خدمت بجالانے اور توبہ و استغفار کرنے کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ دعا کی کہ یارب!عَزَّوَجَلَّ، اپنے حبیب ،نبی آخر الزماں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہماری نسل میں ظاہر فرما اور یہ شرف ہمیں عنایت فرما۔ یہ دعا قبول ہوئی اور ان دونوں بزرگوں کی نسل میں حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری ہوئی۔ امام بغوی نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھاحالانکہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خمیر تیارہورہا تھا، میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں ،میں دعائے ابراہیم ہوں ،بشارت عیسیٰ ہوں ، اپنی والدہ کے اس خواب کی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھی اور ان کے لیے ایک بلند نورظاہر ہوا جس سے ملک شام کے ایوان اور محلات ان کے لیے روشن ہوگئے۔(شرح السنۃ، کتاب الفضائل، باب فضائل سید الاولین والآخرین محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ۷ / ۱۳، الحدیث: ۳۵۲۰)
اس حدیث میں دعائے ابراہیم سے یہی دعا مراد ہے جو اس آیت میں مذکور ہے، اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور آخر زمانہ میں حضور سید الانبیاء محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو مبعوث فرمایا ۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۱ / ۹۱) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَانِہٖ
{وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ: اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے ۔} آیت میں کتاب سے مراد قرآن پاک اور اس کی تعلیم سے اس کے حقائق و معانی کا سکھانا مراد ہے۔اور حکمت میں سنت، احکامِ شریعت اور اسرار وغیرہ سب داخل ہیں۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے متعلق بہت سی دعائیں مانگیں جو رب تعالیٰ نے لفظ بلفظ قبول فرمائیں۔ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مومن جماعت میں ، مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے، رسول ہوئے، صاحب ِ کتاب ہوئے، آیات کی تلاوت فرمائی، امت کو کتابُ اللہ سکھائی، حکمت عطا فرمائی، ان کے نفسوں کا تزکیہ کیا، اسرارِ الہٰی پر مطلع کیا ۔
آیت’’وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی بھی شان معلوم ہوئی کہ حضوراکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے جن کو کتاب وحکمت سکھائی اور جنہیں پاک و صاف کیا ان کے اولین مصداق صحابہ ہی تو تھے۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ پورا قرآن آسان نہیں ورنہ اس کی تعلیم کے لئے حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہ بھیجے جاتے۔ جو کہے کہ قرآن سمجھنا بہت آسان ہے اسے کسی بڑے عالم کے پاس لے جائیں ، پندرہ منٹ میں حال ظاہر ہوجائے گا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کے ساتھ حدیث کی بھی ضرورت ہے۔ ’’اَلْحِكْمَةَ‘‘ کا ایک معنیٰ سنت بھی کیا گیاہے جیسا کہ مشہور مفسرحضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ حکمت سنت ہی ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۲۹، ۱ / ۹۲)
{وَ یُزَكِّیْهِمْ: اور انہیں خوب پاکیزہ فرمادے۔} ستھرا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ نفس کو گناہوں کی آلودگیوں ، شہوات و خواہشات کی آلائشوں اور ارواح کی کدورتوں سے پاک و صاف کرکے آئینہ دل کو تجلیات و انوارِ الہٰیہ دیکھنے کے قابل کردیں تاکہ اسرارِ الہٰی اور انوارِ باری تعالیٰ اس میں جلوہ گر ہوسکیں۔ تمام غوث، قطب، ابدال،اولیاء ، اصفیاء، صوفیاء، فقہاء و علماء کا تزکیہ اِسی مقدس بارگاہ سے ہوتا ہے۔ اعلی حضرت رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
آسمان خوان ، زمین خوان ، زمانہ مہمان
صاحب ِ خانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا