Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 143 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِؕ-وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُؕ-وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(143)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا: اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا ۔} یعنی اے مسلمانو! جس طرح ہم نے تمہیں ہدایت دی اور خانہ کعبہ کو تمہارا قبلہ بنایا اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت زمانہ کے لحاظ سے سب سے پیچھے ہے اور مرتبہ کے لحاظ سے سب سے آگے یعنی افضل ہے۔ افضل کیلئے یہاں ’’وسط‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور عربی میں ’’ بہترین ‘‘کیلئے بھی ’’وسط‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
{لِتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ: تاکہ تم گواہ ہوجاؤ۔} مسلمان دنیا و آخرت میں گواہ ہیں ،دنیا میں تو اس طرح کہ مسلمان کی گواہی مومن و کافر سب کے بارے میں شرعاً معتبر ہے اور کافر کی گواہی مسلمان کے خلاف معتبر نہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ کے فضل سے مُردوں کے حق میں بھی اس امت کی گواہی معتبر ہے اوررحمت و عذاب کے فرشتے اس کے مطابق عمل کرتے ہیں ، چنانچہ بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو انہوں نے اس کی تعریف کی ۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ’’ واجب ہوگئی ۔پھر دوسرا جنازہ گزرا تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے اس کی برائی بیان کی۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’واجب ہوگئی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دریافت کیا : یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا چیز واجب ہو گئی ؟ارشاد فرمایا: پہلے جنازے کی تم نے تعریف کی ،اُس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور دوسرے کی تم نے برائی بیان کی، اُس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی۔ تم زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو ۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب ثناء الناس علی المیت، ۱ / ۴۶۰، الحدیث: ۱۳۶۷)
اورآخرت میں اس امت کی گواہی یہ ہے کہ جب تمام اولین و آخرین جمع ہوں گے اور کفار سے فرمایا جائے گا کہ کیا تمہارے پاس میری طرف سے ڈرانے او راحکام پہنچانے والے نہیں آئے؟ تو وہ انکار کریں گے اور کہیں گے کہ کوئی نہیں آیا۔ حضراتِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دریافت فرمایا جائے گا تووہ عرض کریں گے کہ یہ جھوٹے ہیں ، ہم نے انہیں تبلیغ کی ہے ۔ اس بات پر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کافروں پرحجت قائم کرنے کیلئے دلیل طلب کی جائے گی، وہ عرض کریں گے کہ امت ِمحمدِیَّہ ہماری گواہ ہے۔ چنانچہ یہ امت پیغمبروں کے حق میں گواہی دے گی کہ ان حضرات نے تبلیغ فرمائی۔ اس پر گزشتہ امت کے کفار کہیں گے، امت محمدیہ کو کیا معلوم؟ یہ توہم سے بعدمیں آئے تھے۔ چنانچہ امت محمدیہ سے دریافت فرمایا جائے گاکہ’’ تم کیسے جانتے ہو ؟ وہ عرض کریں گے، یارب! عَزَّوَجَلَّ،تو نے ہماری طرف اپنے رسول محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھیجا ،قرآن پاک نازل فرمایا، ان کے ذریعے سے ہم قطعی ویقینی طور پر جانتے ہیں کہ حضراتِ انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کامل طریقے سے فرضِ تبلیغ ادا کیا، پھر سید الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے آپ کی امت کے متعلق دریافت فرمایا جائے گا توحضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان کی تصدیق فرمائیں گے۔(بغوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱ / ۳۸)
زبان کی احتیاط نہ کرنے کا نقصان:
یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ تمام گواہیاں امت کے صالحین اور اہلِ صدق حضرات کے ساتھ خاص ہیں اور ان کے معتبر ہونے کے لیے زبان کی نگہداشت شرط ہے ،جو لوگ زبان کی احتیاط نہیں کرتے اور بے جا خلاف ِشرع کلمات ان کی زبان سے نکلتے ہیں اور ناحق لعنت کرتے ہیں صحیح حدیثوں کے مطابق روزِ قیامت نہ وہ شفاعت کریں گے اور نہ وہ گواہ ہوں گے ۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النہی عن لعن الدواب وغیرہا، ص ۱۴۰۰، الحدیث: ۸۵(۲۵۹۸))
{وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا: رسول تم پر گواہ ہوں گے۔} علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گواہی یہ ہے کہ آپ ہر ایک کے دینی رتبے اور اس کے دین کی حقیقت پر مطلع ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس چیز سے واقف ہیں جو کسی کا دینی رتبہ بڑھنے میں رکاوٹ ہے،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو لوگوں کے گناہ معلوم ہیں ،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے ایمان کی حقیقت،اعمال، نیکیاں ، برائیاں ،اخلاص اورنفاق وغیرہ کو نورِ حق سے جانتے ہیں۔ (روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱ / ۲۴۸)
ایسا ہی کلام شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی تفسیر ’’فَتْحُ الْعَزِیْز‘‘ میں بھی ذکر فرمایا ہے۔
یاد رہے کہ ہر نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو ان کی امت کے اعمال پر مطلع کیا جاتا ہے تاکہ روزِ قیامت ان پر گواہی دے سکیں اور چونکہ ہمارے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شہادت سب امتوں کوعام ہوگی اس لیے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہیں۔
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی قطعی و حتمی ہے:
یہ بات حقیقت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی قطعی و حتمی ہے۔ ہمارے پاس قرآن کے کلام الہٰی ہونے کی سب سے بڑی دلیل حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی ہے اور جیسے یہ گواہی قطعی طور پر مقبول ہے اسی طرح حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی دنیا میں اپنی امت کے حق میں مقبول ہے ،لہٰذا حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے زمانہ کے حاضرین کے متعلق جو کچھ فرمایا مثلاً: صحابۂ کرام ، ازواجِ مطہرات اور اہلِ بیت ِکرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے فضائل و مناقب یا غیر موجود لوگوں جیسے حضرت اویس قرنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یا بعدوالوں کے لیے جیسے حضرت امام مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ کیلئے جو کچھ فرمایا ان سب کو تسلیم کرنا لازم ہے۔
{لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـعُ الرَّسُوْلَ : تاکہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے۔} قبلہ کی تبدیلی کی ایک یہ حکمت ارشاد ہوئی کہ اس سے مومن و کافر میں فرق و امتیاز ہوجائے گا کہ کون حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے حکم پر قبلہ تبدیل کرتا ہے اور کون آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نافرمانی کرتا ہے۔ چنانچہ قبلہ کی تبدیلی پر بہت سے کمزور ایمان والے اسلام سے پھر گئے، منافقین نے اسلام پر اعتراض شروع کر دئیے جبکہ پختہ ایمان والے اسلام پر قائم رہے۔(تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۲ / ۹۰)
{وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً : اگرچہ یہ تبدیلی بڑی گراں ہے۔} قبلہ کی تبدیلی کو کاملُ الایمان لوگوں نے تو بڑی خوشدلی سے قبول کیا لیکن منافقوں پر یہ تبدیلی بڑی گراں گزری۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم معلوم ہونے کے بعد قبول کرنے سے دل میں تنگی محسوس کرنا منافقت کی علامت ہے۔ہمارے معاشرے میں بھی لوگوں کی ایک تعداد ایسی ہے جن میں یہ مرض بڑی شدت اختیار کئے ہوئے ہے اور اسی مرض کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا ان کے لئے بہت دشوار ہو چکا ہے حالانکہ کامل مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ جب اسے اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم معلوم ہو جائے تو وہ اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے اوراپنے نفس سے اٹھنے والی وہ آواز وہیں دبا دے جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے معاملے میں اسے روک رہی ہو یا ا س کے دل میں تنگی پیدا کر رہی ہو۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔
{وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ: اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کردے ۔} قبلہ کی تبدیلی یہودیوں کو ہضم نہیں ہو رہی تھی اور یہ طرح طرح سے مسلمانوں کو اس کے خلاف بھڑکانے کی کوششیں کر رہے تھے،چنانچہ کچھ یہودیوں نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی نمازوں کے بارے میں مسلمانوں کے سامنے چند اعتراضات کئے اور بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کے زمانہ میں جن صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے وفات پائی ان کی نمازوں کے درست ہونے پر مسلمانوں سے دلیل مانگی تو ان کے رشتہ داروں نے تاجدار ِرسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے ان کی نمازوں کا حکم دریافت کیا کہ وہ نمازیں ہوئیں یا نہیں ؟ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اوراِنہیں اطمینان دلایا گیا کہ ان صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہم کی نمازیں ضائع نہیں ہوئیں ، ان پر انہیں ثواب ملے گا۔یاد رہے کہ اس آیت مبارکہ میں ایمان سے مراد نماز ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱ / ۹۸، ملخصاً)
اصل الاصول چیز نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی ہے:
قبلہ کی تبدیلی سے پہلے مسلمانوں نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے جتنی نمازیں پڑھی تھیں انہیں صحیح قرار دیا گیا، کیونکہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے جو نمازیں پڑھی گئیں وہ بھی اتباعِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ہی تھیں اور اب جوخانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں یہ بھی اطاعت ِ رسول میں پڑھتے ہیں لہٰذا ان سب کی نمازیں درست ہیں۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور کوئی اس وقت خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے وہ بھی مردود ہے اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور کوئی اس وقت بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھے وہ بھی مردود ہے کہ اصلُ الاصول چیز تو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اتباع ہے۔ اسی کو فرمایا:
لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِـعُ الرَّسُوْلَ
ترجمۂ کنزُالعِرفان:تاکہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :
ثابت ہو اکہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نماز کی بہت اہمیت ہے کہ قرآن میں اسے ایمان فرمایا گیا ہے کیونکہ اسے اداکرنا اور باجماعت پڑھنا کامل ایمان کی دلیل ہے۔حضرت جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’کفرا ور ایمان کے درمیان فرق نما زکا چھوڑنا ہے۔(ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی ترک الصلاۃ، ۴ / ۲۸۱، الحدیث: ۲۶۲۷)
حضرت بُریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ہمارے اور ان (کافروں) کے درمیان عہد نماز ہی ہے،جس نے اسے چھوڑا تو ا س نے کفر کیا۔(ترمذی، کتاب الایمان، باب ما جاء فی ترک الصلاۃ، ۴ / ۲۸۱، الحدیث: ۲۶۳۰)
حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اسلام کی نشانی نماز ہے،تو جس نے نماز کے لئے دل کو فارغ کیا اور نماز کے تمام ارکان و شرائط،اس کے وقت اور اس کی سنتوں کے ساتھ اس پر مداومت کی تو وہ(کامل) مؤمن ہے۔(کنز العمال، حرف الصاد، کتاب الصلاۃ، الباب الاول، الفصل الاول، ۴ / ۱۱۳، الجزء السابع، الحدیث: ۱۸۸۶۶)