banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 146 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْؕ-وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنْهُمْ لَیَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(146)

ترجمہ: کنزالایمان جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے آدمی اپنے بیٹوں کو پہچانتا ہے اور بیشک ان میں ایک گروہ جان بوجھ کر حق چھپاتے ہیں۔ ترجمہ: کنزالعرفان وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور بیشک ان میں ایک گروہ جان بوجھ کر حق چھپاتے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ: وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔} مراد یہ ہےکہ گزشتہ آسمانی کتابوں میں نبی آخر الزماں ، حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے  اوصاف ایسے واضح اور صاف بیان کیے گئے ہیں جن سے علماء اہل کتاب کو حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے خاتَم الانبیاء ہونے میں کچھ شک و شبہ باقی نہیں رہ سکتا اور وہ حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے اس منصب ِعالی کو کامل یقین کے ساتھ جانتے ہیں۔  یہودی علماء میں سے حضرت عبداللہ بن  سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  مشرف باسلام ہوئے تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے دریافت کیا کہ اس آیت میں جو معرفت بیان کی گئی ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ اے عمر! رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ، میں نے حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو دیکھا تو بغیر کسی شک و شبہ کے فوراً پہچان لیا اور میرا حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو پہچاننا اپنے بیٹوں کو پہچاننے سے زیادہ کامل و مکمل تھا۔ حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے پوچھا، وہ کیسے؟ انہوں نے کہا کہ سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے  اوصاف توہماری کتاب توریت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں جبکہ بیٹے کو بیٹا سمجھنا تو صرف عورتوں کے کہنے سے ہے۔ (یعنی حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی پہچان تو اللہ  تعالیٰ نے کرائی لہٰذا وہ تو قطعی و یقینی ہے جبکہ اولاد کی پہچان تو عورتوں کے کہنے سے ہوتی ہے۔) حضرت عمر فاروق  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ سن کر ان کا سر چوم لیا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۶، ۱ / ۱۰۰)

            اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیرِ محلِ شہوت میں دینی محبت سے پیشانی چومنا جائز ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی صرف پہچان ایمان نہیں بلکہ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو  ماننا ایمان ہے۔جیسے یہودی پہچانتے توتھے لیکن مانتے نہ تھے اس لئے کافر ہی رہے۔

{وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنْهُمْ لَیَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ:اور بیشک ان میں ایک گروہ حق چھپاتے ہیں۔} اہلِ کتاب علماء کا ایک گروہ توریت و انجیل میں مذکورحضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی  نعت و صفت کو اپنے بغض و حسد کی وجہ سے جان بوجھ کر چھپاتا تھا، یہاں انہی کابیان ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ حق کو چھپانا معصیت و گناہ ہے اورحضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی  عظمت و شان کو چھپانا یہودیوں کا طریقہ ہے۔