ترجمہ: کنزالایمان
اور ہر ایک کے لئے توجہ کی ایک سمت ہے کہ وہ اسی طرف منہ کرتا ہے تو یہ چاہو کہ نیکیوں میں اوروں سے آگے نکل جائیں تم کہیں ہو اللہ تم سب کو اکٹھا لے آئے گا بیشک اللہ جو چاہے کرے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہر ایک کے لئے توجہ کی ایک سمت ہے جس کی طرف وہ منہ کرتا ہے توتم نیکیوں میں آگے نکل جاؤ۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تم سب کو اکٹھا کر لائے گا۔ بیشک اللہ ہرشے پر قدرت رکھنے والا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ: اور ہر ایک کے لئے توجہ کی ایک سمت ہے ۔}
اس آیت میں تبدیلی قبلہ کی ایک اور حکمت بیان کی گئی ہے کہ ہر امت کیلئے ایک قبلہ
مقرر کیا گیا تو جب امت ِ محمدِیَّہ ایک امت ہے اور سب سے افضل امت ہے تو ان کے
خصوصی امتیاز کیلئے ان کا قبلہ دوسروں سے جداگانہ بنایا گیااوراس میں خصوصیت یہ ہے
کہ ان کایہ قبلہ ہمیشہ کے لئے رہے گا کبھی تبدیل نہ ہو گا۔
{فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ: تو نیکیوں میں آگے نکل جاؤ۔}
یعنی قبلہ کا موضوع طے ہوگیا لہٰذا اب صرف اسی بحث میں نہ رہو بلکہ اللہ تعالیٰ
کی عبادت و اطاعت اور دین کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔
مقابلہ
کس چیز میں کرنا چاہئے:
یہاں
آیت ِ مبارکہ میں ایک بڑی ہی پیاری بات سمجھائی گئی ہے کہ مال و دولت، عہدہ و
منصب ، شہرت و مقبولیت اور دنیاداری ایسی چیز نہیں کہ اس میں ایک دوسرے سے مقابلہ
کیا جائے بلکہ یہ سب تو آزمائش اور محض دنیاوی زندگی کی زینت، دھوکے کا سامان اور
فنا ہونے والی کمائی ہے، جبکہ باقی رہنے والی اور مقابلے کے قابل چیز تو اللہ
تعالیٰ کی عبادت،اس کی اطاعت، جنت اور اس کی رضاہے جس کی طرف اللہ
تعالیٰ نے بار بار بلایا ہے۔صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی
سیرت میں نیکیوں میں مقابلے اور سبقت لے جانے کے بکثرت نظارے دیکھے جا سکتے ہیں
جیسے حضرت عمر فاروق رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ غزوہ تَبوک میں گھر کا آدھا مال
خیرات کرنے کیلئے لائے تو حضرت سیدنا صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ گھر کا
سارا سامان لے آئے۔(شرح الزرقانی، کتاب المغازی، ثم غزوۃ تبوک، ۴ / ۶۹)
صحابۂ
کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم میں
باپ بیٹے میں جہاد میں شرکت کیلئے بحث ہوتی، ہر کوئی کہتا کہ میں شرکت کروں گا تم
گھر پر رہو، حتی کہ معذور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھی
راہِ خدا میں شہادت کیلئے بے قرار رہتے۔(مدار ج النبوہ،
کارزارہائے صحابہ در جنگ احد، الجزء الثانی، ص۱۲۴)
غربت
و بے کسی کی وجہ سے راہِ خدا میں سفر نہ کرسکنے والے روتے تھے۔( توبہ: ۹۲)ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اگر
آدھی رات عبادت کرتا تو دوسرا پوری رات، ایک اگرتہائی قرآن کی تلاوت کرتا تو
دوسرا آدھے قرآن کی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نیکیوں میں ایک دوسرے سے
سبقت لے جانے کی توفیق اور جذبہ عطا فرمائے۔ [1]
{اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا:تم جہاں کہیں بھی ہوگے۔} یعنی اے مسلمانو
اور اہل کتاب !تم جہاں کہیں بھی ہو گے ،قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تم سب کو
اکٹھا کر لائے گا اور وہ اطاعت گزار بندوں کو ثواب دے گا اور نافرمانوں کو عذاب
میں مبتلا کر دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہرشے پر قدرت رکھنے والا ہے تو وہ
مخلوق کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے ،اطاعت گزاروں کو ثواب دینے اور سزا کے
مستحق افراد کو عذاب دینے پر بھی قادر ہے۔(خازن، البقرۃ، تحت
الآیۃ: ۱۴۸، ۱ / ۱۰۱)
[1]۔۔۔نیکیوں کا جذبہ پانے کے لئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافلوں
میں سفر بے حد مفید ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہی ’’سورۂ
بقرہ‘‘ نازل ہوئی ۔(اس
سے مراد ہے کہ جس سورت کی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔) (خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ،۱ /
۱۹)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 40 رکوع
اور286آیتیں ہیں۔
’’بقرہ‘‘ نام رکھے جانے
کی وجہ:
عربی میں گائے کو
’’ بَقَرَۃٌ‘‘کہتے ہیں اور اس
سورت کے آٹھویں اور نویں رکوع کی آیت نمبر67تا73 میں بنی اسرائیل کی ایک
گائے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اُس کی مناسبت سے اِسے ’’سورۂ بقرہ ‘‘کہتے
ہیں۔
احادیث میں اس سورت کے بے
شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 5فضائل درج ذیل ہیں :
(1) …حضرت ابو اُمامہ
باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،نبی
کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن
پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنی تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے
گا اور دو روشن سورتیں (یعنی) ’’سورہ ٔبقرہ ‘‘اور’’سورۂ اٰل عمران‘‘ پڑھا کرو
کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جس طرح دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں
یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی
شفاعت کریں گی،’’سورۂ بقرہ‘‘ پڑھا کرو کیونکہ ا س کو پڑھتے رہنے میں برکت ہے اور
نہ پڑھنے میں (ثواب سے محروم رہ جانے پر) حسرت ہے اور جادو گر اس کا مقابلہ کرنے
کی طاقت نہیں رکھتے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ
القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳، الحدیث: ۲۵۲(۸۰۴))
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ
بناؤ(یعنی اپنے گھروں میں عبادت کیا کرو) اور شیطان ا س گھر سے بھاگتا ہے جس میں
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی جاتی ہے۔(مسلم، کتاب صلاۃ
المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ۔۔۔الخ، ص۳۹۳،الحدیث:۲۱۲(۷۸۰))
(3) …حضرت ابو
مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ
دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو
شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے گا تو وہ اسے(ناگہانی مصائب سے)
کافی ہوں گی۔(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل البقرۃ،۳ /
۴۰۵،
الحدیث:۵۰۰۹)
(4) …حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ ہر چیز کی ایک بلندی ہے اور
قرآن کی بلندی ’’سورہ ٔ بقرہ‘‘ہے، اس میں ایک آیت ہے جو قرآن کی(تمام )آیتوں
کی سردار ہے اور وہ( آیت) آیت الکرسی ہے۔(ترمذی،
کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ،۴ /
۴۰۲،
الحدیث:۲۸۸۷)
(5)…حضرت سہل بن سعد
ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے
دن کے وقت اپنے گھر میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی تو تین دن تک شیطان اس کے گھر
کے قریب نہیں آئے گا اورجس نے رات کے وقت اپنے گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی تو
تین راتیں ا س گھر میں شیطان داخل نہ ہو گا۔(شعب
الایمان، التاسع من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر سورۃ
البقرۃ۔۔۔ الخ،۲ / ۴۵۳، الحدیث:۲۳۷۸)
یہ قرآن پاک کی سب سے
بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بنی اسرائیل پر کئے گئے
انعامات،ان انعامات کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی ناشکری، بنی سرائیل کے جرائم
جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، سرکشی اور عناد کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے طرح طرح کے مطالبات کرنا،اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا،انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ناحق شہید کرنا اور عہد توڑناوغیرہ،گائے
ذبح کرنے کا واقعہ اورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود
یہودیوں کے باطل عقائد و نظریات اور ان کی خباثتوں کو بیان کیا گیا ہے اور
مسلمانوں کو یہودیوں کی دھوکہ دہی سے آگاہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ’’سورہ ٔبقرہ‘‘
میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں:
(1) … قرآن پاک کی
صداقت ،حقانیت اور اس کتاب کے ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔
(2) … قرآن پاک سے
حقیقی ہدایت حاصل کرنے والوں اور ان کے اوصاف کا بیان،ازلی کافروں کے ایمان سے
محروم رہنے اور منافقوں کی بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
(3) …قرآن پاک میں شک
کرنے والے کفار سے قرآن مجید کی سورت جیسی کوئی ایک سورت بنا کر لا نے کا مطالبہ
کیا گیا اور ان کے اس چیز سے عاجز ہونے کو بھی بیان کر دیاگیا۔
(4) …حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کا واقعہ
بیان کیا گیا اور فرشتوں کے سامنے ان کی شان کو ظاہر کیا گیا ہے۔
(5) …خانۂ کعبہ کی تعمیر
اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کا ذکر کیا گیاہے۔
(6) …اس سورت میں نبی
کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پسند کی وجہ سے قبلہ
کی تبدیلی اور اس تبدیلی پر ہونے والے اعتراضات و جوابات کا بیان ہے۔
(7) … عبادات اور
معاملات جیسے نماز قائم کرنے،زکوٰۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے،خانۂ کعبہ کا
حج کرنے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں
جہاد کرنے،دینی معاملات میں قمری مہینوں پر اعتماد کرنے،اللہ تعالیٰ
کی راہ میں مال خرچ کرنے،والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے،یتیموں کے ساتھ
معاملات کرنے،نکاح،طلاق،رضاعت، عدت ،بیویوں کے ساتھ اِیلاء کرنے،جادو،قتل،لوگوں کے
مال ناحق کھانے، شراب، سود،جوا اورحیض کی حالت میں بیویوں کے ساتھ صحبت کرنے وغیرہ
کے بارے میں مسلمانوں کو ایک شرعی دستور فراہم کیا گیا ہے۔
(8) …تابوت سکینہ ، طالوت
اور جالوت میں ہونے والی جنگ کا بیان ہے۔
(9) …مردوں کو زندہ کرنے
کے ثبوت پرحضرت عزیر عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا واقعہ ذکر کیا
گیا ہے۔
(10) …حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار پرندوں کے ذریعے مردوں کو زندہ کرنے
پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا
نظارہ کرو انے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(11) …اس سورت کے آخر
میں اللہتعالیٰ کی بارگاہ میں
رجوع کرنے،گناہوں سے توبہ کرنے اور کفار کے خلاف مدد طلب کرنے کی طرف مسلمانوں کو
توجہ دلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو قیامت کے دن سے ڈرایا گیا ہے۔
مناسبت
سورۂ فاتحہ کے ساتھ مناسبت:
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی
اپنے سے ماقبل سورت’’فاتحہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ میں
مسلمانوں کو یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی تھی’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ یعنی اے اللہ!ہم کو سیدھا راستہ چلا۔(فاتحہ:
۵) اور ’’سورۂ بقرہ‘‘ میں کامل ایمان والوں کے اوصاف ،مشرکین
اور منافقین کی نشانیاں ،یہودیوں اور عیسائیوں کا طرز عمل ، نیز معاشرتی زندگی کے
اصول اور احکام ذکر کر کے مسلمانوں کے لئے’’ صراطِ مستقیم ‘‘کو بیان کیا گیا ہے ۔