banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 156 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَﭤ(156)

ترجمہ: کنزالایمان کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا۔ ترجمہ: کنزالعرفان وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ:وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے۔}اس سے پہلی آیت میں مصیبتوں پر صبر کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی اور اس آیت میں یہ بتایاگیا کہ صبر کرنے والے وہ لوگ ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہ تعالیٰ ہی کے مملوک اور اسی کے بندے ہیں وہ ہمارے ساتھ جو چاہے کرے اور آخرت میں ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔(جلالین، البقرۃ، تحت الایۃ: ۱۵۶، ص۲۲)

 ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھنے کے فضائل:

            احادیث میں مصیبت کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھنے کے بہت فضائل بیان کئے گئے ہیں ، ان میں سے 5فضائل یہ ہیں :

(1)…اُم المؤمنین حضرت ام سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا  فرماتی ہیں :میں نے سید المرسلین  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان پر کوئی مصیبت آئے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ (پڑھے اور یہ دعا کرے) ’’اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا ’’اے اللہ!میری ا س مصیبت پر مجھے اجر عطا فرما اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما ‘‘تو اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بہتر بدل عطا فرمائے گا۔ حضرت ام سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں :جب حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ   فوت ہو گئے تو میں نے سوچا کہ مسلمانوں میں حضرت ابو سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بہتر کون ہو گا؟ وہ تو پہلے گھر والے ہیں جنہوں نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف ہجرت کی۔ بہر حال میں نے یہ دعاکہہ لی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے مجھے رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ عطا فرما دئیے (جو کہ حضرت ابو سلمہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے بہت بہتر تھے)(مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ،  ص۴۵۷، الحدیث: ۳(۹۱۸))

(2)…حضرت امام حسین بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس مسلمان مرد یا عورت پر کوئی مصیبت پہنچی اور وہ اسے یاد کر کے ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ کہے، اگرچہ مصیبت کا زمانہ دراز ہو گیا ہو تو اللہ تعالیٰ اُس پر نیا ثواب عطا فرماتا ہے اور ویسا ہی ثواب دیتا ہے جیسا اس دن دیا تھا جس دن مصیبت پہنچی تھی ۔(مسند  امام احمد، حدیث الحسین بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ،  ۱ / ۴۲۹، الحدیث: ۱۷۳۴)

(3)…ایک مرتبہ نبی اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا چراغ بجھ گیا تو آپ نے ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھا۔ عرض کی گئی کیا یہ بھی مصیبت ہے ؟ ارشاد فرمایا: جی ہاں ! اور ہر وہ چیزجو مومن کو اَذِیَّت دے وہ اس کے لئے مصیبت ہے اور اس پر اجر ہے۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۵۶، ۱ / ۳۸۰)

(4)…ایک اورحدیث شریف میں ہے کہ مصیبت کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھنا رحمت ِالٰہی کا سبب ہوتا ہے۔(کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، ۲ / ۱۲۲، الجزء الثالث، الحدیث: ۶۶۴۶)

(5)…حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری امت کو ایک ایسی چیز دی گئی ہے جو پہلی امتوں میں سے کسی کو نہیں دی گئی ،وہ چیز مصیبت کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ پڑھنا ہے۔(معجم الکبیر، ۱۲ / ۳۲، الحدیث: ۱۲۴۱۱)