ترجمہ: کنزالایمان
بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کا بدلتے آنا اور کشتی کہ دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اور وہ جو اللہ نے آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو اس سے جِلا دیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل کہ آسمان و زمین کے بیچ میں حکم کا باندھا ہے ان سب میں عقلمندوں کے لئے ضرور نشانیاں ہیں۔
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی تبدیلی میں اور کشتی میں جو دریا میں لوگوں کے فائدے لے کر چلتی ہے اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا پھر اس کے ساتھ مردہ زمین کو زندگی بخشی اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کی گردش اور وہ بادل جو آسمان اور زمین کے درمیان حکم کے پابند ہیں ان سب میں یقینا عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں ۔
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ فِیْ خَلْقِ
السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ:بیشک
آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں(نشانیاں ہیں )۔}
کعبہ معظمہ کے گرد مشرکین کے تین سو ساٹھ بت تھے جنہیں وہ معبودمانتے تھے انہیں یہ
سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ معبود صرف ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔اس لیے انہوں نے حضور سید عالم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ایسی آیت طلب کی جس سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ثابت ہو، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(مدارک،
البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۶۴، ص۸۹،
ملتقطاً)
اور انہیں یہ بتایا
گیا کہ آسمان و زمین کی تخلیق، آسمان کی بلندی، اس میں چمکتے ہوئے ستارے، اس کا
بغیر ستونوں کے قائم ہونا، سورج چاند، ستاروں کے ذریعے اس کی زینت سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کی
نشانیاں ہیں۔یونہی زمین اور اس کی وسعت، اس میں موجود پہاڑ، معدنیات، جواہرات، اس
میں رواں سمندر، دریا، چشمے ، اس سے اگنے والے درخت، سبزہ، پھل، پھول، نباتات، شب
و روز کا آنا جانا، دن رات کا چھوٹا بڑا ہونا، سمندر میں بھاری بوجھ کے باوجود
کشتیوں کا تیرنا، لوگوں کا اس میں سوار ہونا، سمندری عجائبات، ہواؤں کا
چلنا،سمندر کے ذریعے مشرق و مغرب میں تجارت کرنا، سمندر سے بخارات کا اٹھنا، بارش
کی صورت میں برسنا، بارش سے خشک اورمردہ زمین کا سر سبزوشاداب ہوجانا، اس پانی اور
اس کے ثمرات سے زندگی میں باغ و بہار آنا، زمین میں کروڑوں قسم کے حیوانات کا
ہونا ،ہواؤں کی گردش، ان کے خواص و عجائبات ،یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے علم و
حکمت اور اس کی قدرت و وحدانیت پر عظیم دلیلیں ہیں۔یہ سارا تو ایک قسم کا اجمالی بیان ہے۔ مذکورہ بالا چیزوں میں ہر ایک
پر جداگانہ غور و فکر کریں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ایسے حیرت انگیز
کرشمے نظر آتے ہیں کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی
ہے۔ کائنات میں انتہائی کثرت سے پائی جانے والی ہوا پر ہی غور کرلیں تو اس میں
نجانے کتنی گیسیں، کتنی تاثیرات اور ضروریات انسانی کی کتنی بنیادی چیزیں ہیں۔ صرف
یہی دیکھ لیں کہ اگر ہوا نہ ہو تو تمام انسان دس منٹ کے اندر اندر مرجائیں ، زمین
کے اوپر اور ہوا میں پائے جانے والے جانوروں کی حیات ختم ہوجائے۔ یہ تو قدرت ِ الہٰی
کی ایک قسم کی صرف ایک تاثیر ہے جبکہ قدرت الہٰی کی کھربوں سے زائد قسموں میں ایک
ایک چیز میں کروڑوں عجائبات ہیں۔ کسی زمانے میں آنکھ کو صرف دیکھنے کا ایک آلہ سمجھا
جاتا تھا اور علمی ترقی کے ساتھ ساتھ آنکھ کے ایسے ایسے ظاہری و باطنی، جسمانی و
روحانی عجائبات سامنے آرہے ہیں کہ اب صرف آنکھ سے متعلقہ علوم کی اقسام نہ جانے
کتنی ہیں اور لاکھوں لوگ اس علم کے ماہر ہونے کے باوجوداس بات کا دعویٰ نہیں
کرسکتے کہ ہم نے آنکھ سے متعلق ہر چیز کا علم حاصل کرلیا ہے۔
اس آیت مبارکہ اور اس کی تفسیر سے یہ بھی معلوم
ہوا کہ سائنسی علوم بھی معرفت ِ الہٰی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جتنا سائنسی علم
زیادہ ہوگا اتنی ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کی پہچان زیادہ
ہوگی، لہٰذا اگر کوئی دینِ اسلام کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کی نیت سے سائنسی علوم سیکھتا ہے
تو یہ بھی عظیم عبادت ہوگی نیز اللہ تعالیٰ نے جو کائنات میں غور و فکر کا
حکم دیا ہے یہ اس حکم کی تعمیل بھی قرار پائے گی۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہی ’’سورۂ
بقرہ‘‘ نازل ہوئی ۔(اس
سے مراد ہے کہ جس سورت کی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔) (خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ،۱ /
۱۹)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 40 رکوع
اور286آیتیں ہیں۔
’’بقرہ‘‘ نام رکھے جانے
کی وجہ:
عربی میں گائے کو
’’ بَقَرَۃٌ‘‘کہتے ہیں اور اس
سورت کے آٹھویں اور نویں رکوع کی آیت نمبر67تا73 میں بنی اسرائیل کی ایک
گائے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اُس کی مناسبت سے اِسے ’’سورۂ بقرہ ‘‘کہتے
ہیں۔
احادیث میں اس سورت کے بے
شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 5فضائل درج ذیل ہیں :
(1) …حضرت ابو اُمامہ
باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،نبی
کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن
پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنی تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے
گا اور دو روشن سورتیں (یعنی) ’’سورہ ٔبقرہ ‘‘اور’’سورۂ اٰل عمران‘‘ پڑھا کرو
کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جس طرح دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں
یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی
شفاعت کریں گی،’’سورۂ بقرہ‘‘ پڑھا کرو کیونکہ ا س کو پڑھتے رہنے میں برکت ہے اور
نہ پڑھنے میں (ثواب سے محروم رہ جانے پر) حسرت ہے اور جادو گر اس کا مقابلہ کرنے
کی طاقت نہیں رکھتے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ
القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳، الحدیث: ۲۵۲(۸۰۴))
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ
بناؤ(یعنی اپنے گھروں میں عبادت کیا کرو) اور شیطان ا س گھر سے بھاگتا ہے جس میں
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی جاتی ہے۔(مسلم، کتاب صلاۃ
المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ۔۔۔الخ، ص۳۹۳،الحدیث:۲۱۲(۷۸۰))
(3) …حضرت ابو
مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ
دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو
شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے گا تو وہ اسے(ناگہانی مصائب سے)
کافی ہوں گی۔(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل البقرۃ،۳ /
۴۰۵،
الحدیث:۵۰۰۹)
(4) …حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ ہر چیز کی ایک بلندی ہے اور
قرآن کی بلندی ’’سورہ ٔ بقرہ‘‘ہے، اس میں ایک آیت ہے جو قرآن کی(تمام )آیتوں
کی سردار ہے اور وہ( آیت) آیت الکرسی ہے۔(ترمذی،
کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ،۴ /
۴۰۲،
الحدیث:۲۸۸۷)
(5)…حضرت سہل بن سعد
ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے
دن کے وقت اپنے گھر میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی تو تین دن تک شیطان اس کے گھر
کے قریب نہیں آئے گا اورجس نے رات کے وقت اپنے گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی تو
تین راتیں ا س گھر میں شیطان داخل نہ ہو گا۔(شعب
الایمان، التاسع من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر سورۃ
البقرۃ۔۔۔ الخ،۲ / ۴۵۳، الحدیث:۲۳۷۸)
یہ قرآن پاک کی سب سے
بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بنی اسرائیل پر کئے گئے
انعامات،ان انعامات کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی ناشکری، بنی سرائیل کے جرائم
جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، سرکشی اور عناد کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے طرح طرح کے مطالبات کرنا،اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا،انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ناحق شہید کرنا اور عہد توڑناوغیرہ،گائے
ذبح کرنے کا واقعہ اورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود
یہودیوں کے باطل عقائد و نظریات اور ان کی خباثتوں کو بیان کیا گیا ہے اور
مسلمانوں کو یہودیوں کی دھوکہ دہی سے آگاہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ’’سورہ ٔبقرہ‘‘
میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں:
(1) … قرآن پاک کی
صداقت ،حقانیت اور اس کتاب کے ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔
(2) … قرآن پاک سے
حقیقی ہدایت حاصل کرنے والوں اور ان کے اوصاف کا بیان،ازلی کافروں کے ایمان سے
محروم رہنے اور منافقوں کی بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
(3) …قرآن پاک میں شک
کرنے والے کفار سے قرآن مجید کی سورت جیسی کوئی ایک سورت بنا کر لا نے کا مطالبہ
کیا گیا اور ان کے اس چیز سے عاجز ہونے کو بھی بیان کر دیاگیا۔
(4) …حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کا واقعہ
بیان کیا گیا اور فرشتوں کے سامنے ان کی شان کو ظاہر کیا گیا ہے۔
(5) …خانۂ کعبہ کی تعمیر
اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کا ذکر کیا گیاہے۔
(6) …اس سورت میں نبی
کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پسند کی وجہ سے قبلہ
کی تبدیلی اور اس تبدیلی پر ہونے والے اعتراضات و جوابات کا بیان ہے۔
(7) … عبادات اور
معاملات جیسے نماز قائم کرنے،زکوٰۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے،خانۂ کعبہ کا
حج کرنے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں
جہاد کرنے،دینی معاملات میں قمری مہینوں پر اعتماد کرنے،اللہ تعالیٰ
کی راہ میں مال خرچ کرنے،والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے،یتیموں کے ساتھ
معاملات کرنے،نکاح،طلاق،رضاعت، عدت ،بیویوں کے ساتھ اِیلاء کرنے،جادو،قتل،لوگوں کے
مال ناحق کھانے، شراب، سود،جوا اورحیض کی حالت میں بیویوں کے ساتھ صحبت کرنے وغیرہ
کے بارے میں مسلمانوں کو ایک شرعی دستور فراہم کیا گیا ہے۔
(8) …تابوت سکینہ ، طالوت
اور جالوت میں ہونے والی جنگ کا بیان ہے۔
(9) …مردوں کو زندہ کرنے
کے ثبوت پرحضرت عزیر عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا واقعہ ذکر کیا
گیا ہے۔
(10) …حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار پرندوں کے ذریعے مردوں کو زندہ کرنے
پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا
نظارہ کرو انے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(11) …اس سورت کے آخر
میں اللہتعالیٰ کی بارگاہ میں
رجوع کرنے،گناہوں سے توبہ کرنے اور کفار کے خلاف مدد طلب کرنے کی طرف مسلمانوں کو
توجہ دلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو قیامت کے دن سے ڈرایا گیا ہے۔
مناسبت
سورۂ فاتحہ کے ساتھ مناسبت:
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی
اپنے سے ماقبل سورت’’فاتحہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ میں
مسلمانوں کو یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی تھی’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ یعنی اے اللہ!ہم کو سیدھا راستہ چلا۔(فاتحہ:
۵) اور ’’سورۂ بقرہ‘‘ میں کامل ایمان والوں کے اوصاف ،مشرکین
اور منافقین کی نشانیاں ،یہودیوں اور عیسائیوں کا طرز عمل ، نیز معاشرتی زندگی کے
اصول اور احکام ذکر کر کے مسلمانوں کے لئے’’ صراطِ مستقیم ‘‘کو بیان کیا گیا ہے ۔