ترجمہ: کنزالایمان
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور بھلائی والے ہو جاؤ بیشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالو اورنیکی کرو بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت فرماتاہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ:
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔}
راہِ خدا میں خرچ کرنے کا اصل حکم تو مال کے حوالے سے ہے لیکن علامہ صاوی رَحْمَۃُاللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اس کے معنیٰ کی مزید وسعت کو بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ
آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اوراس کی رضا کے کاموں
میں اپنے جان و مال کو صرف کرو خواہ جہاد ہو یا رشتے داروں سے حسنِ سلوک یا اللہ تعالیٰ کے کمزور اور غریب بندوں کی
مددکی صور ت میں ہو۔(صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۹۵، ۱ / ۱۶۳)
{وَ لَا تُلْقُوْا
بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ: اور اپنے ہاتھوں
خودکو ہلاکت میں نہ ڈالو۔} خود کو ہلاکت میں
ڈالنے کی بہت سی صورتیں ہیں :۔
(1)…صحیح
بخاری میں ہے’’یہ آیت خرچ کرنے سے متعلق نازل ہوئی۔(بخاری،
کتاب التفسیر، باب وانفقوا فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ،۳ / ۱۷۸،
الحدیث: ۴۵۱۶)
یعنی راہ ِ خدا میں خرچ کرنا بند کرکے یا کم
کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔
(2)… حضرت
ابو ایوب انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
فرماتے ہیں : ’’یہ آیت ہم انصار صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کےبارے
میں نازل ہوئی، جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرما دیا
اور اس کے مددگار کثیر ہوگئے تو ہم میں سے بعض نے بعض سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا: (جہاد کی مصروفیت میں ) ہمارے
مال ضائع ہو گئے لہٰذااب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرما دیا ہے تو (کیا
ہی اچھا ہو کہ)اگر
ہم اپنے اموال میں ٹھہریں اور جو ضائع ہوا اس کی درستی کرلیں ، اس پر اللہ
تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور جو ہم نے کہا اس کا رد فرمایاکہ ہلاکت توجہاد
چھوڑکر اپنے اموال کی درستی میں لگ جانا ہے۔ (ترمذی،
کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ البقرۃ، ۴ / ۴۵۴، الحدیث: ۲۹۸۳)
(3)…
انصار جتنا اللہ تعالیٰ توفیق دیتا
صدقہ و خیرات کرتے رہتے ۔ ایک سال انہیں تنگدستی کا سامنا ہوا تو انہوں نے یہ عمل
روک دیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(معجم
الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۸۹، الحدیث: ۵۶۷۱)
(4)…
حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے
ہیں کہ کوئی شخص گناہ کرتا اور کہتا میری بخشش نہ ہو گی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(معجم
الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۸۹، الحدیث: ۵۶۷۲)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ راہِ خدا میں خرچ کرنے کو
ترک کرنا بھی ہلاکت کا سبب ہے، فضول خرچی بھی ہلاکت ہے، جہاد ترک کرنا بھی ہلاکت
ہے یونہی اس طرح کی ہر وہ چیز جو ہلاکت کا باعث ہو ان سب سے باز رہنے کا حکم ہے
حتیّٰ کہ بے ہتھیار میدان جنگ میں جانایا زہر
کھانا یا کسی طرح خود کشی کرناسب حرام ہے۔چونکہ خودکشی خود کو ہلاک کرنے کی نہایتہی نمایاں صورت ہے لہٰذا یہاں اس کی وعید بیان
کی جاتی ہے، چنانچہ خود کشی کے بارے میں رسولاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس
نے پہاڑ سے گر کر خود کشی کی وہ مسلسل جہنم میں گرتا رہے گا اور جس نے زہر کھا کر
خود کشی کی ( قیامت کے دن)
وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں اسے ہمیشہ کھاتا رہے گا اورجس نے
چھری کے ذریعے خود کو قتل کیا ، (قیامت کے دن) وہ
چھری اس کے ہاتھ میں ہو گی اور دوزخ کی آگ میں ہمیشہ وہ چھری اپنے پیٹ میں مارتا
رہے گا۔(بخاری،
کتاب الطب، باب شرب السمّ والدوائبہ۔۔۔ الخ، ۴ / ۴۳،
الحدیث: ۵۷۷۸)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہی ’’سورۂ
بقرہ‘‘ نازل ہوئی ۔(اس
سے مراد ہے کہ جس سورت کی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔) (خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ،۱ /
۱۹)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 40 رکوع
اور286آیتیں ہیں۔
’’بقرہ‘‘ نام رکھے جانے
کی وجہ:
عربی میں گائے کو
’’ بَقَرَۃٌ‘‘کہتے ہیں اور اس
سورت کے آٹھویں اور نویں رکوع کی آیت نمبر67تا73 میں بنی اسرائیل کی ایک
گائے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اُس کی مناسبت سے اِسے ’’سورۂ بقرہ ‘‘کہتے
ہیں۔
احادیث میں اس سورت کے بے
شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 5فضائل درج ذیل ہیں :
(1) …حضرت ابو اُمامہ
باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،نبی
کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن
پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنی تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے
گا اور دو روشن سورتیں (یعنی) ’’سورہ ٔبقرہ ‘‘اور’’سورۂ اٰل عمران‘‘ پڑھا کرو
کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جس طرح دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں
یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی
شفاعت کریں گی،’’سورۂ بقرہ‘‘ پڑھا کرو کیونکہ ا س کو پڑھتے رہنے میں برکت ہے اور
نہ پڑھنے میں (ثواب سے محروم رہ جانے پر) حسرت ہے اور جادو گر اس کا مقابلہ کرنے
کی طاقت نہیں رکھتے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ
القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳، الحدیث: ۲۵۲(۸۰۴))
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ
بناؤ(یعنی اپنے گھروں میں عبادت کیا کرو) اور شیطان ا س گھر سے بھاگتا ہے جس میں
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی جاتی ہے۔(مسلم، کتاب صلاۃ
المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ۔۔۔الخ، ص۳۹۳،الحدیث:۲۱۲(۷۸۰))
(3) …حضرت ابو
مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ
دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو
شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے گا تو وہ اسے(ناگہانی مصائب سے)
کافی ہوں گی۔(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل البقرۃ،۳ /
۴۰۵،
الحدیث:۵۰۰۹)
(4) …حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ ہر چیز کی ایک بلندی ہے اور
قرآن کی بلندی ’’سورہ ٔ بقرہ‘‘ہے، اس میں ایک آیت ہے جو قرآن کی(تمام )آیتوں
کی سردار ہے اور وہ( آیت) آیت الکرسی ہے۔(ترمذی،
کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ،۴ /
۴۰۲،
الحدیث:۲۸۸۷)
(5)…حضرت سہل بن سعد
ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے
دن کے وقت اپنے گھر میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی تو تین دن تک شیطان اس کے گھر
کے قریب نہیں آئے گا اورجس نے رات کے وقت اپنے گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی تو
تین راتیں ا س گھر میں شیطان داخل نہ ہو گا۔(شعب
الایمان، التاسع من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر سورۃ
البقرۃ۔۔۔ الخ،۲ / ۴۵۳، الحدیث:۲۳۷۸)
یہ قرآن پاک کی سب سے
بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بنی اسرائیل پر کئے گئے
انعامات،ان انعامات کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی ناشکری، بنی سرائیل کے جرائم
جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، سرکشی اور عناد کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے طرح طرح کے مطالبات کرنا،اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا،انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ناحق شہید کرنا اور عہد توڑناوغیرہ،گائے
ذبح کرنے کا واقعہ اورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود
یہودیوں کے باطل عقائد و نظریات اور ان کی خباثتوں کو بیان کیا گیا ہے اور
مسلمانوں کو یہودیوں کی دھوکہ دہی سے آگاہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ’’سورہ ٔبقرہ‘‘
میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں:
(1) … قرآن پاک کی
صداقت ،حقانیت اور اس کتاب کے ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔
(2) … قرآن پاک سے
حقیقی ہدایت حاصل کرنے والوں اور ان کے اوصاف کا بیان،ازلی کافروں کے ایمان سے
محروم رہنے اور منافقوں کی بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
(3) …قرآن پاک میں شک
کرنے والے کفار سے قرآن مجید کی سورت جیسی کوئی ایک سورت بنا کر لا نے کا مطالبہ
کیا گیا اور ان کے اس چیز سے عاجز ہونے کو بھی بیان کر دیاگیا۔
(4) …حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کا واقعہ
بیان کیا گیا اور فرشتوں کے سامنے ان کی شان کو ظاہر کیا گیا ہے۔
(5) …خانۂ کعبہ کی تعمیر
اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کا ذکر کیا گیاہے۔
(6) …اس سورت میں نبی
کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پسند کی وجہ سے قبلہ
کی تبدیلی اور اس تبدیلی پر ہونے والے اعتراضات و جوابات کا بیان ہے۔
(7) … عبادات اور
معاملات جیسے نماز قائم کرنے،زکوٰۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے،خانۂ کعبہ کا
حج کرنے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں
جہاد کرنے،دینی معاملات میں قمری مہینوں پر اعتماد کرنے،اللہ تعالیٰ
کی راہ میں مال خرچ کرنے،والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے،یتیموں کے ساتھ
معاملات کرنے،نکاح،طلاق،رضاعت، عدت ،بیویوں کے ساتھ اِیلاء کرنے،جادو،قتل،لوگوں کے
مال ناحق کھانے، شراب، سود،جوا اورحیض کی حالت میں بیویوں کے ساتھ صحبت کرنے وغیرہ
کے بارے میں مسلمانوں کو ایک شرعی دستور فراہم کیا گیا ہے۔
(8) …تابوت سکینہ ، طالوت
اور جالوت میں ہونے والی جنگ کا بیان ہے۔
(9) …مردوں کو زندہ کرنے
کے ثبوت پرحضرت عزیر عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا واقعہ ذکر کیا
گیا ہے۔
(10) …حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار پرندوں کے ذریعے مردوں کو زندہ کرنے
پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا
نظارہ کرو انے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(11) …اس سورت کے آخر
میں اللہتعالیٰ کی بارگاہ میں
رجوع کرنے،گناہوں سے توبہ کرنے اور کفار کے خلاف مدد طلب کرنے کی طرف مسلمانوں کو
توجہ دلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو قیامت کے دن سے ڈرایا گیا ہے۔
مناسبت
سورۂ فاتحہ کے ساتھ مناسبت:
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی
اپنے سے ماقبل سورت’’فاتحہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ میں
مسلمانوں کو یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی تھی’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ یعنی اے اللہ!ہم کو سیدھا راستہ چلا۔(فاتحہ:
۵) اور ’’سورۂ بقرہ‘‘ میں کامل ایمان والوں کے اوصاف ،مشرکین
اور منافقین کی نشانیاں ،یہودیوں اور عیسائیوں کا طرز عمل ، نیز معاشرتی زندگی کے
اصول اور احکام ذکر کر کے مسلمانوں کے لئے’’ صراطِ مستقیم ‘‘کو بیان کیا گیا ہے ۔