Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 217 ≫ Translation ≫ Tafsir
یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِؕ-قُلْ قِتَالٌ فِیْهِ كَبِیْرٌؕ-وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ كُفْرٌۢ بِهٖ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِۗ-وَ اِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِؕ-وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى یَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِیْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْاؕ-وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(217)
تفسیر: صراط الجنان
{یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِ:آپ سے ماہِ حرام میں جہاد کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔}
شانِ نزول: نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت عبد اللہ بن جَحش رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی سرکردگی میں مجاہدین کی ایک جماعت روانہ فرمائی تھی جس نے مشرکین سے جہادکیا ۔ان کا خیال تھا کہ لڑائی کا دن جمادی الاخریٰ کا آخری دن ہے مگر حقیقت میں چاند 29تاریخ کو ہوگیا تھا اور رجب کی پہلی تاریخ شروع ہوگئی تھی۔ اس پر کفار نے مسلمانوں کو شرم دلائی کہ تم نے ماہ حرام میں جنگ کی ۔حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اس کے متعلق سوال ہونے لگے تواس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۱۸، ۲ / ۲۳، الجزء الثالث)
کہ ماہِ حرام میں لڑائی کرنا اگرچہ بہت بڑی بات ہے لیکن مشرکوں کا شرک، مسلمانوں کو ایذائیں دینا، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ستانا یہاں تک کہ ہجرت پر مجبور کردینا، لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے روکنا، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اورمسلمانو ں کو مسجد ِ حرام میں نماز پڑھنے سے روکنا، دورانِ نماز طرح طرح کی ایذائیں دینا یہ ماہِ حرام میں لڑائی سے بہت بڑھ کر ہے۔ لہٰذا پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے کرتوت دیکھ لو پھر مسلمانوں پر اعتراض کرنا۔ تمہارے یہ افعال مسلمانوں کے فعل سے زیادہ شدید ہیں کیونکہ کفر و ظلم تو کسی حالت میں جائز نہیں ہوتے جبکہ لڑائی تو بعض صورتوں میں جائز ہوہی جاتی ہے نیز مسلمانوں نے جو ماہِ حرام میں لڑائی کی تو وہ ان کی غلط فہمی کی وجہ سے تھی کہ چاند کی تاریخ ان پر مشکوک ہوگئی لیکن کفار کا کفر اور مسلمانوں کو ایذائیں تو کوئی قابلِ شک فعل نہیں ، یہ تو واضح طور پر ظلم و سرکشی تھی۔یا د رہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ممانعت کا حکم سورۂ توبہ آیت نمبر5سے منسوخ ہے۔
آیت’’ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ‘‘ سے معلوم ہونے والے مسائل:
(1)…اس آیت سے معلوم ہوا کہ خود بڑے بڑے عیبوں میں مبتلا ہونا اور دوسروں پر طعن کرنا کافروں کا طریقہ ہے۔ یہ بیماری ہمارے ہاں بھی عام ہے کہ لوگ ساری دنیا کی برائیاں اور غیبتیں بیان کرتے ہیں اور خود اس سے بڑھ کر عیبوں کی گندگی سے آلودہ ہوتے ہیں۔ ایک حدیث پاک میں بھی اس بیماری کو بیان کیا گیا ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے کسی کو اپنے بھائی کی آنکھ میں تنکا تو نظر آجاتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں شہتیر نظر نہیں آتا۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الحظر والاباحۃ، باب الغیبۃ، ذکر الاخبار عمّا یجب علی المرء۔۔۔ الخ، ۷ / ۵۰۶، الحدیث: ۵۷۳۱)
(2)… فتنہ انگیزی قتل سے بڑھ کر جرم ہے۔ بعض لوگوں کو فتنہ و فساد کا شوق ہوتا ہے، آیت میں توفتنہ سے مراد کفر و شرک ہے لیکن اس سے ہٹ کر بھی فتنہ انگیزی کوئی معمولی جرم نہیں ہے۔
(3)…اس آیت سے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی شان بھی معلوم ہوئی کہ کفار نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم پر اعتراض کیا اور اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی طر ف سے کفار کوجواب دیا۔
{وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ: اوروہ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے۔} اس آیت میں خبر دی گئی کہ کفار مسلمانوں سے ہمیشہ عداوت رکھیں گے اور جہاں تک ان سے ممکن ہوگا وہ مسلمانوں کو دین سے منحرف کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے چنانچہ آج دنیا میں یہی ہورہا ہے، کفار کی ہزاروں تنظیمیں مسلم اور غیر مسلم ممالک میں اپنا دین، اپنا کلچر، اپنی تہذیب پھیلانے میں مشغول ہیں۔ جہاں اصل اسلام سے پھیر سکیں وہاں اسلام سے پھیرنے کی کوشش کرتی ہیں ، جہاں یہ نہ ہوسکے وہاں لوگوں کوقرآن کی من مانی تاویلوں میں لگادیتی ہیں ، حدیثوں کے انکار میں لگادیتی ہیں ، نت نئے فتنوں میں مبتلا کردیتی ہیں۔ اگر ایمانیات پر حملہ نہ کرسکیں تو اخلاقیات تباہ کرکے ایمان کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہیں الغرض آیت کی حقانیت واضح ہے کہ کفار تمہیں ہمیشہ دین سے پھیرنے کی کوششوں میں لگے رہیں گے۔
{وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ: اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے مرتد ہوجائے۔} مرتد ہونے سے تمام عمل باطل ہو جاتے ہیں ، آخرت میں تو اس طرح کہ ان پر کوئی اجرو ثواب نہیں اور دنیا میں اس طرح کہ شریعت حکومت ِ اسلامیہ کو مُرتد کے قتل کا حکم دیتی ہے، مرد مرتد ہوجائے تو بیوی نکاح سے نکل جاتی ہے،مرتد شخص اپنے رشتے داروں کی وراثت پانے کا مستحق نہیں رہتا، مرتد کی تعریف کرنا اور اس سے تعلق رکھنا جائز نہیں ہوتا۔ چونکہ مرتد ہونے سے تمام اعمال برباد ہو جاتے ہیں لہٰذا اگر کوئی حاجی مرتد ہو جائے پھر ایمان لائے تو وہ دوبارہ حج کرے، پہلا حج ختم ہو چکا۔ اسی طرح زمانہ اِرتِداد میں جو نیکیاں کیں وہ قبول نہیں۔جو حالت ِ ارتداد میں مرگیا وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گاجیسا کہ آیت کے آخر میں ’’هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ‘‘ فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو خاتمہ بالخیر نصیب کرے۔یاد رکھیں کہ مرتد ہونا بہت سخت جرم ہے، افسوس کہ آج کل مسلمانوں کی اکثریت دین کے بنیادی عقائد سے لاعلم ہے، شادی و مرگ اور ہنسی مذاق کے موقع پر کفر یہ جملوں کی بھرمار ہے، گانے، فلمیں ، ڈرامے خصوصاً مزاحیہ ڈرامے کفریات کا بہت بڑا ذریعہ ہیں ، ان چیزوں سے بچانے والے علوم کا حاصل کرنا فرض ہے۔([1])
[1] ۔۔۔اس سلسلے میں امیرِ اہلِسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف ،،کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب،، (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)کا ضرور مطالعہ کیجئے۔