Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 221 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى یُؤْمِنَّؕ-وَ لَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْكُمْۚ-وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْاؕ-وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ یَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ۚۖ-وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلَى الْجَنَّةِ وَ الْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖۚ-وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(221)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ: اور مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو۔} یہ آیت حضرت مرثد غَنَوِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں نازل ہوئی ،وہ ایک بہادر شخص تھے۔ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے انہیں مکہ مکرمہ روانہ فرمایا تاکہ وہاں سے کسی تدبیر کے ساتھ مسلمانوں کو نکال لائیں۔وہاں عَناق نامی ایک مشرکہ عورت تھی جو زمانہ جاہلیت میں ان کے ساتھ محبت کرتی تھی، وہ حسین اور مالدار تھی جب اُس کو اِن کے آنے کی خبر ہوئی تو وہ آپ کے پاس آئی اور اپنی طرف دعوت دی ۔آپ نے خوفِ الٰہی کی وجہ سے اس سے اِعراض کیا اور فرمایا کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا تب اس نے نکاح کی درخواست کی توآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ یہ بھی رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اجازت پر موقوف ہے۔ چنانچہ پھر اپنے کام سے فارغ ہو کر جب آپ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو صورت ِ حال عرض کرکے نکاح کے متعلق دریافت کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۱، ۱ / ۱۶۰)
اور فرمایا گیا کہ مشرکہ عورتوں سے نکاح کی اجازت نہیں اگرچہ وہ تمہیں پسند ہوں۔ البتہ یہ یاد رہے کہ اہلِ کتاب یعنی یہودی، عیسائی عورت سے نکاح کی اجازت ہے ۔ اس کی تفصیل سورہ مائدہ آیت5میں آئے گی۔
{وَ لَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ: اور بیشک مسلمان لونڈی مشرکہ عورت سے اچھی ہے۔} شانِ نزول: ایک روز حضرت عبد اللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کسی خطا پر اپنی باندی کے طمانچہ مارا پھر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اس کا ذکر کیا۔ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ا س کی ایمانی حالت کے متعلق دریافت کیا ۔ عرض کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت کی گواہی دیتی ہے، رمضان کے روزے رکھتی ہے، اچھی طرح وضو کرتی ہے اور نماز پڑھتی ہے۔ حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: وہ مومنہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ نے عرض کیا :تو اس ذات کی قسم جس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سچا نبی بنا کر مبعوث فرمایا، میں اس کو آزاد کرکے اس کے ساتھ نکاح کروں گا ، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا ۔ اس پر لوگوں نے طعنہ زنی کی کہ تم نے ایک سیاہ فام باندی کے ساتھ نکاح کیا حالانکہ فلاں مشرکہ آزاد عورت تمہارے لیے حاضر ہے ،وہ حسین بھی ہے ،مالدار بھی ہے اس پریہ آیت نازل ہوئی(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۱، ۱ / ۱۶۱)
کہ مسلمان باندی مشرکہ عورت سے بہتر ہے خواہ وہ مشرکہ آزاد ہو اور حسن و مال کی وجہ سے اچھی معلوم ہوتی ہو۔
{ وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا: اور مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔} یہ عورت کے سرپرستوں سے خطاب ہے کہ اپنی مسلمان عورتوں کو مشرکوں کے نکاح میں نہ دو۔ مسلمان عورت کا نکاح مشرک و کافر کے ساتھ باطل و حرام ہے۔مشرک و کافر لوگ تو تمہیں جہنم کی آگ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور تمہیں نصیحت فرمانے کیلئے تم پر اپنے احکام نازل فرماتا ہے۔ اس آیت میں آج کل کے مسلمانوں کے لئے بہت واضح حکم موجود ہے۔انتہائی افسوس ہے کہ قرآن میں اتنی صراحت و وضاحت سے حکم آنے کے باوجود مسلمان لڑکوں میں مشرکہ لڑکیوں کے ساتھ اور یونہی کافر لڑکوں اور مسلمان لڑکیوں میں باہم شادیوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کفارو مسلم اکٹھے رہتے ہیں۔ مغربی طرزِزندگی نیز لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم سے جہاں اور تباہیاں مچی ہوئی ہیں اور بے حیائی کا طوفان امڈ آیا ہے وہیں باہم ایسی حرام شادیوں کے ذریعے زندگی بھر کی بدکاری کے سلسلے بھی جاری و ساری ہیں۔ اس تمام صورتحال کا وبال اُن لڑکوں لڑکیوں پر بھی ہے جو اس میں مُلَوَّث ہیں اور ان والدین پربھی جو راضی خوشی اولاد کو اس جہنم میں جھونکتے ہیں اور ان حکمرانوں اور صاحب ِ اختیار پر بھی ہے جو ایسی تعلیم کو رواج دیتے ہیں یا باوجودِ قدرت اس کا اِنسِداد کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور یونہی اس کا وبال اُن نام نہاد جاہل دانشوروں ، لبرل اِزم کے مریضوں اور دین دشمن قلمکاروں پر بھی ہے جو اس کی تائید و حمایت میں ورق سیاہ کرتے ہیں۔