Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 229 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ-وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(229)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ: طلاق دو بار تک ہے۔} یہ آیت ایک عورت کے متعلق نازل ہوئی جس نے سرکارِدوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے شوہر نے کہا ہے کہ وہ اس کو طلاق دیتا رہے گا اور رجوع کرتا رہے گا اور ہر مرتبہ جب طلاق کی عدت گزرنے کے قریب ہوگی تورجوع کرلے گا اور پھر طلاق دیدے گا، اسی طرح عمر بھر اس کو قید رکھے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(البحر المحیط، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۹، ۲ / ۲۰۲)
اور ارشاد فرمادیا کہ طلاق رَجعی دو بار تک ہے اس کے بعد طلاق دینے پررجوع کا حق نہیں۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مرد کو طلاق دینے کا اختیار دو بار تک ہے۔ اگر تیسری طلاق دی تو عورت شوہر پر حرام ہوجائے گی اور جب تک پہلے شوہر کی عدت گزار کر کسی دوسرے شوہر سے نکاح اور ہم بستری کرکے عدت نہ گزار لے تب تک پہلے شوہر پر حلال نہ ہوگی۔ لہٰذا ایک طلاق یا دو طلاق کے بعد رجوع کرکے اچھے طریقے سے اسے رکھ لو اور یا طلاق دے کر اسے چھوڑ دو تاکہ عورت اپنا کوئی دوسرا انتظام کرسکے۔ اچھے طریقے سے روکنے سے مراد رجوع کرکے روک لینا ہے اور اچھے طریقے سے چھوڑ دینے سے مراد ہے کہ طلاق دے کر عدت ختم ہونے دے کہ اس طرح ایک طلاق بھی بائنہ ہوجاتی ہے۔ شریعت نے طلاق دینے اور نہ دینے کی دونوں صورتوں میں بھلائی اور خیر خواہی کا فرمایا ہے۔ ہمارے زمانے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد دونوں صورتوں میں الٹا چلتی ہے، طلاق دینے میں بھی غلط طریقہ اور بیوی کو رکھنے میں غلط طریقہ۔ اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے، اٰمین۔
{وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ: اور تمہیں حلال نہیں۔}یہاں بوقت ِ طلاق عورت سے مال لینے کا مسئلہ بیان کیا جارہا ہے ۔ اس کی دو صورتیں ہیں پہلی یہ کہ شوہر اپنا دیا ہوا مہر واپس لے اور یہ بطورِ خلع نہ ہو، یہ صورت تو سراسر ناجائز و حرام ہے ، یہ مضمون سورہ نساء کی آیت 20، 21میں بھی ہے ، وہاں فرمایا کہ تم بیویوں کو ڈھیروں مال بھی دے چکے ہو تو طلاق کے وقت اس سے لینے کی اجازت نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عورت مرد سے خلع لے اور خلع میں عورت مال ادا کرے، اس صورت کی اجازت ہےاور آیت میں جو فرمایا کہ عورت کے فدیہ دینے میں کوئی حرج نہیں اس سے یہی صورت مراد ہے لیکن اس صورت میں بھی یہ حکم ہے کہ اگر زیادتی مرد کی طرف سے ہو تو خلع میں مال لینا مکروہ ہے اور اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہو تو مال لینا درست ہے لیکن مہر کی مقدار سے زیادہ لینا پھر بھی مکروہ ہے۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الطلاق، الباب الثامن، الفصل الاول، ۱ / ۴۸۸)
(1)…بلاوجہ عورت کیلئے طلاق کا مطالبہ کرنا حرام ہے۔ایسی عورتیں اور وہ حضرات درج ذیل3 احادیث سے عبرت حاصل کریں جو عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکاتے ہیں :
(۱)حضرت ثوبان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ جو عورت اپنے شوہر سے بلا وجہ طلاق کا مطالبہ کرے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔(ابو داؤد، کتاب الطلاق، باب فی الخلع، ۲ / ۳۹۰، الحدیث: ۲۲۲۶)
(۲)حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے ۔(ابو داود، کتاب الطلاق، باب فیمن خبب امرأۃ علی زوجہا، ۲ / ۳۶۹، الحدیث: ۲۱۷۵)
(۳)حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےارشاد فرمایا: ’’ ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے،پھر وہ اپنے لشکر روانہ کرتا ہے،اس کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب وہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فتنہ ڈالتا ہے۔اس کے لشکر میں سے ایک آ کر کہتا ہے:میں نے ایسا ایسا کیا ہے۔وہ کہتا ہے کہ تم نے کچھ نہیں کیا۔ پھر ان میں سے ایک شخص آ کر کہتا ہے:میں نے ایک شخص کو اس حال میں چھوڑا کہ ا س کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی کروا دی۔ابلیس اس کو اپنے قریب کر کے کہتا ہے:ہاں !تم نے کام کیا ہے ۔(مسلم ، کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب تحریش الشیطان وبعث سرایاہ لفتنۃ الناس۔۔۔ الخ، ص۱۵۱۱، الحدیث: ۶۷(۲۸۱۳))
(2)…خلع کا معنیٰ: مال کے بدلے میں نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں۔ خلع میں شرط ہے کہ عورت اسے قبول کرے۔
(3)… اگر میاں بیوی میں نا اتفاقی رہتی ہو تو سب سے پہلے میاں بیوی کے گھروالے ان میں صلح صفائی کی کوشش کریں جیسا کہ سورۂ نساء آیت 35میں ہے کہ مردو عورت دونوں کی طرف سے پنچ مقرر کیا جائے جو ان کے درمیان صلح صفائی کروادے لیکن اگر اس کے باوجود آپس میں نہ بنے اور یہ اندیشہ ہو کہ احکام شرعیہ کی پابندی نہ کرسکیں گے تو خلع میں کوئی مضائقہ نہیں اور جب خلع کر لیں تو طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور جو مال طے کیا ہو عورت پر اُس کی ادائیگی لازم ہو جاتی ہے۔ (ہدایہ، کتاب الطلاق، باب الخلع، ۱ / ۲۶۱)
خلع کی آیت حضرت جمیلہ بنت عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہاکے بارے میں نازل ہوئی، انہوں نے اپنے شوہر حضرت ثابت بن قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شکایت حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں کی اور کسی طرح ان کے پاس رہنے پر راضی نہ ہوئیں تب حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ میں نے ان کو ایک باغ دیا ہے اگر یہ میرے پاس رہنا گوارا نہیں کرتیں اور مجھ سے علیحدگی چاہتی ہیں تو وہ باغ مجھے واپس کریں میں ان کو آزاد کردوں گا۔ حضرت جمیلہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اس بات کو منظور کر لیا چنانچہ حضرت ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے باغ لے لیا اور انہیں طلاق دے دی۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۲۹، ۱ / ۶۷۱)