Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 23 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪-وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(23)
تفسیر: صراط الجنان
{ وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ:اور اگر تمہیں کچھ شک ہو ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و وحدانیت کا بیان ہوا اور یہاں سے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت اور قرآن کریم کے اللہ تعالیٰ کی بے مثل کتاب ہونے کی وہ قاہر دلیل بیان فرمائی جارہی ہے جو طالب ِصادق کو اطمینان بخشے اور منکروں کو عاجز کردے۔اللہ تعالیٰ کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل قرآن ہے لہٰذا اس رکوع میں ترتیب سے ان سب کو بیان کیا گیا ہے۔
{عَلٰى عَبْدِنَا: اپنے خاص بندے پر ۔}اس آیت میں خاص بندے سے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مراد ہیں۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۳۵) یہاں اس اندازِ تعبیر میں نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ محبوبیت کی طرف بھی اشارہ ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
لیکن رضا نے ختمِ سخن اس پہ کر دیا
خالق کا بندہ خَلق کا آقا کہوں تجھے
{فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ: تو تم اس جیسی ایک سورت بنالاؤ ۔}آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت میں قرآن کے بے مثل ہونے پر دو ٹوک الفاظ میں ایک کھلی دلیل دی جارہی ہے کہ اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز کرنے والوں کو چیلنج ہےکہ اگر تم قرآن کو اللہ تعالیٰ کی کتاب نہیں بلکہ کسی انسان کی تصنیف سمجھتے ہو تو چونکہ تم بھی انسان ہو لہٰذا اس جیسی ایک سورت بنا کر لے آؤ جو فصاحت و بلاغت ،حسنِ ترتیب ، غیب کی خبریں دینے اور دیگر امور میں قرآن پاک کی مثل ہواور اگرایسی کوئی سورت بلکہ آیت تک نہ بنا سکو تو سمجھ لو کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کا انکار کرنے والوں کا انجام دوزخ ہے جو بطورِ خاص کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے۔
نوٹ: یہ چیلنج قیامت تک تمام انسانوں کیلئے ہے، آج بھی قرآن کو محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تصنیف کہنے والے کفار تو بہت ہیں مگر قرآن کی مثل ایک آیت بنانے والا آج تک کوئی سامنے نہیں آیا اور جس نے اس کا دعویٰ کیا ، اس کا پول خود ہی چند دنوں میں کھل گیا۔
قرآن مجید وہ بے مثل کتا ب ہے کہ لوگ اپنے تمام تر کمالات کے باوجود قرآن پاک جیساکلام بنانے سے عاجز ہیں اورجن و انس مل کر بھی اس کی آیات جیسی ایک آیت بھی نہیں بنا سکتے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور مخلوق میں کسی کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی مثل کلام بنا سکے اور یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج تک کوئی بھی قرآن مجید کے دئیے ہوئے چیلنج کا جواب نہیں دے سکا اور نہ ہی قیامت تک کوئی دے سکے گا۔قرآن پاک کے بے مثل ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جنہیں علماء و مفسرین نے اپنی کتابوں میں بہت شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، ہم یہاں پر ان میں سے صرف تین وجوہات بیان کرتے ہیں۔ تفصیل کیلئے بڑی تفاسیر کی طرف رجوع فرمائیں۔
(1)…فصاحت و بلاغت:
عرب کے لوگ فصاحت و بلاغت کے میدان کے شہسوار تھے اور ان کی صفوں میں بہت سے ایسے لوگ موجود تھے جو کہ بلاغت کے فن میں اعلیٰ ترین منصب رکھنے والے،عمدہ الفاظ بولنے والے،چھوٹے اور بڑے جملوں کو بڑی فصاحت سے تیار کرنے والے تھے اور تھوڑے کلام میں بہترین تصرف کرلیتے تھے، اپنی مراد کو بڑے عمدہ انداز میں بیان کرتے، کلام میں فصاحت و بلاغت کے تمام فنون کی رعایت کرتے اور ایسے ماہر تھے کہ فصاحت و بلاغت کے جس دروازے سے چاہتے داخل ہو جاتے تھے،الغرض دنیا میں ہر طرف ان کی فصاحت و بلاغت کا ڈنکا بجتا تھا اور لوگ فصاحت و بلاغت میں ان کا مقابلہ کرنے کی تاب نہ رکھتے تھے۔
ان اہل عرب کو فصاحت و بلاغت کے میدا ن میں اگر کسی نے عاجز کیا ہے تو وہ کلام قرآن مجید ہے ،اس مقدس کتاب کی فصاحت و بلاغت نے اہل عرب کی عقلوں کو حیران کردیا اور اپنی مثل لانے سے عاجز کردیا۔
(2)…تلاوتِ قرآن کی تاثیر:
قرآن مجید کے بے مثل ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اسے پڑھنے اور سننے والا کبھی سیر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے اکتاتا ہے بلکہ وہ اس کی جتنی زیادہ تلاوت کرتا ہے اتنی ہی زیادہ شیرینی اور لذت پاتا ہے اور بار بار اس کی تلاوت کرنے سے اس کی محبت دل میں راسخ ہوتی جاتی ہے اور ا س کے علاوہ کوئی اور کلام اگرچہ وہ کتنی ہی خوبی والا اورکتنا ہی فصیح و بلیغ کیوں نہ ہو اسے بار بار پڑھنے سے دل اکتا جاتا ہے اور جب اسے دوبارہ پڑھا جائے تو طبیعت بیزار ہو جاتی ہے ۔ قرآن مجید کی اس شان کے بارے میں حضرت حارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں ،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ قرآن وہ ہے جس کی برکت سے خواہشات بگڑتی نہیں اور جس سے دوسری زبانیں مشتبہ نہیں ہوتی، علماء اس سے سیر نہیں ہوتے،یہ بار بار دہرائے جانے سے پرانا نہیں ہوتا اور ا س کے عجائبات ختم نہیں ہوتے۔(ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل القرآن، ۴ / ۴۱۴-۴۱۵، الحدیث: ۲۹۱۵)
نیزقرآن مجید کی آیات میں رعب ، قوت اور جلال ہے کہ جب کوئی ان کی تلاوت کرتا ہے یا انہیں کسی سے سنتا ہے تو اس کے دل پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے حتّٰی کہ جسے قرآن پاک کی آیات کے معانی سمجھ میں نہ آ رہے ہوں اور وہ آیات کی تفسیر بھی نہ جانتا ہو، اس پر بھی رقت طاری ہو جاتی ہے، جبکہ قرآن مجید کے علاوہ اور کسی کتاب میں یہ وصف نہیں پایا جاتا اگرچہ وہ کیسے ہی انداز میں کیوں نہ لکھی گئی ہو۔
(3)… غیب کی خبریں :
قرآن پاک میں مستقبل کے متعلق جو خبریں دی گئیں وہ تمام کی تمام پوری ہوئیں مثلاً زمانہ نبوی میں رومیوں کے ایرانیوں پر غالب آنے کی خبر دی گئی اور وہ سوفیصد پوری ہوئی۔