ترجمہ: کنزالایمان
پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر شہر سے جدا ہوا بولا بیشک اللہ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے تو جو اس کا پانی پیے وہ میرا نہیں اور جو نہ پیے وہ میرا ہے مگر وہ جو ایک چُلو اپنے ہاتھ سے لے لے تو سب نے اس سے پیا مگر تھوڑوں نے پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ کے مسلمان نہر کے پار گئے بولے ہم میں آج طاقت نہیں جالوت اور اس کے لشکروں کی بولے وہ جنہیں اللہ سے ملنے کا یقین تھا کہ بارہا کم جماعت غالب آئی ہے زیادہ گروہ پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔
پھر جب سامنے آئے جالوت اور اس کے لشکروں کے عرض کی اے رب ہمارے ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمارے پاؤں جمے رکھ اورکافر لوگوں پرہماری مدد کر۔
ترجمہ: کنزالعرفان
پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر شہر سے جدا ہوا تو اس نے کہا: بیشک اللہ تمہیں ایک نہر کے ذریعے آزمانے والا ہے تو جو اس نہر سے پانی پئے گاوہ میرا نہیں ہے اور جو نہ پئے گا وہ میرا ہے سوائے اس کے جو ایک چلو اپنے ہاتھ سے بھرلے تو ان میں سے تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ سب نے اس نہر سے پانی پی لیا پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ والے مسلمان نہر سے پار ہوگئے توانہوں نے کہا: ہم میں آج جالوت اور اس کے لشکروں کے ساتھ مقابلے کی طاقت نہیں ہے ۔(لیکن) جواللہ سے ملنے کا یقین رکھتے تھے انہوں نے کہا: بہت دفعہ چھوٹی جماعت اللہ کے حکم سے بڑی جماعت پر غالب آئی ہے اور اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔
پھر جب وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے سامنے آئے تو انہوں نے عرض کی: اے ہمارے رب! ہم پر صبر ڈال دے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اورکافر قوم کے مقابلے میں ہماری مددفرما۔
تفسیر: صراط الجنان
{فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ: پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر شہر سے جدا ہوا۔} اب جس جہاد کا تذکرہ چلتا آرہا ہے اس کے واقعات کا بیان ہے
۔ طالوت اپنے لشکر کو لے کر بیت المقدس سے روانہ ہوا چونکہ بنی اسرائیل کا یہ سفرِ
جہاد سخت گرمی میں تھا،لہٰذا جب گرمی کی وجہ سے ان مجاہدین کو سخت پیاس لگی تو
طالوت نے انہیں خبر دی کہ عنقریب ایک نہر آئے گی مگر یہ تمہارے امتحان کا وقت ہے
اس میں سے پانی نہ پینا، طالوت یہ سب کچھ حضرت شمویل عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وحی کی بنا پر
کہہ رہے تھے۔ چنانچہ کہا کہ اس نہر سے پیٹ بھر کر پانی نہ پینا کیونکہ جو اِس نہر
سے زیادہ پانی پئے گا وہ میری جماعت میں نہیں رہے گا کیونکہ یہ ان کیلئے امتحان مقرر فرمایا گیا
تھا کہ شدید پیاس کے وقت جو حکم کی تعمیل پر ثابت قدم رہے گا وہ آئندہ بھی ثابت
قدم رہے گا اور سختیوں کا مقابلہ کرسکے گا اور جو اس وقت اپنی خواہش سے مغلوب ہو
کر نافرمانی کرے گا وہ آئندہ کی سختیوں کو کیسے برداشت کرے گا۔ صرف چلو بھر چند
گھونٹ پی لینے کی اجازت تھی، سیر ہوکر پینا منع تھا ۔ پھر جب وہ نہر آگئی تو
لوگوں کی اکثریت امتحان میں ناکام ہوگئی اور انہوں نے جی بھر کرپانی پیا ، صرف تین
سو تیرہ افراد ثابت قدم رہے ، انہوں نے صبر کیا اور انہوں نے ایک چلوپر گزارا
کرلیا، اس سے ان کے دل اورایمان کو قوت حاصل ہوئی اور وہ سلامتی سے نہر سے گزر گئے
جبکہ جنہوں نے خوب پیا تھا ان کے ہونٹ سیاہ ہوگئے ، ان کی پیاس اور بڑ ھ گئی اور
وہ بزدل ہو گئے اور جب انہوں نے جالوت کے لشکر کی کثرت و طاقت کو دیکھا تو کہنے
لگے کہ آج تو ہم ان جالوت اور ا س کے لشکر کے ساتھ
نہیں لڑسکتے لیکن اِن لوگوں کے برعکس لقائے ربانی اور رضائے الٰہی کے مشتاق بندوں
نے عرض کی کہ ایسا تو کتنی مرتبہ ہوا کہ چھوٹا گروہ اپنے سے بڑے گروہ پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے
غالب آجاتا ہے، اللہ
تعالیٰ تو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ چنانچہ پھر جب لشکر آمنے سامنے آئے تو
لشکر ِ مومنین کے ثابت قدم مجاہدوں نے بارگاہِ الٰہی میں دعاکی کہ اے اللہ! ہمیں دشمن کے
مقابلے میں میدانِ جنگ میں صبر کی توفیق دے اور ہمیں ثابت قدمی نصیب فرما اور
کافروں کے مقابلے میں ہمیں اپنی حمایت و نصرت عطا فرما۔(خازن،
البقرۃ، تحت الآیۃ:۲۴۹، ۱ / ۱۸۹-۱۹۰)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہی ’’سورۂ
بقرہ‘‘ نازل ہوئی ۔(اس
سے مراد ہے کہ جس سورت کی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔) (خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ،۱ /
۱۹)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 40 رکوع
اور286آیتیں ہیں۔
’’بقرہ‘‘ نام رکھے جانے
کی وجہ:
عربی میں گائے کو
’’ بَقَرَۃٌ‘‘کہتے ہیں اور اس
سورت کے آٹھویں اور نویں رکوع کی آیت نمبر67تا73 میں بنی اسرائیل کی ایک
گائے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اُس کی مناسبت سے اِسے ’’سورۂ بقرہ ‘‘کہتے
ہیں۔
احادیث میں اس سورت کے بے
شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 5فضائل درج ذیل ہیں :
(1) …حضرت ابو اُمامہ
باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،نبی
کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن
پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنی تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے
گا اور دو روشن سورتیں (یعنی) ’’سورہ ٔبقرہ ‘‘اور’’سورۂ اٰل عمران‘‘ پڑھا کرو
کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جس طرح دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں
یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی
شفاعت کریں گی،’’سورۂ بقرہ‘‘ پڑھا کرو کیونکہ ا س کو پڑھتے رہنے میں برکت ہے اور
نہ پڑھنے میں (ثواب سے محروم رہ جانے پر) حسرت ہے اور جادو گر اس کا مقابلہ کرنے
کی طاقت نہیں رکھتے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ
القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳، الحدیث: ۲۵۲(۸۰۴))
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ
بناؤ(یعنی اپنے گھروں میں عبادت کیا کرو) اور شیطان ا س گھر سے بھاگتا ہے جس میں
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی جاتی ہے۔(مسلم، کتاب صلاۃ
المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ۔۔۔الخ، ص۳۹۳،الحدیث:۲۱۲(۷۸۰))
(3) …حضرت ابو
مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ
دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو
شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے گا تو وہ اسے(ناگہانی مصائب سے)
کافی ہوں گی۔(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل البقرۃ،۳ /
۴۰۵،
الحدیث:۵۰۰۹)
(4) …حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ ہر چیز کی ایک بلندی ہے اور
قرآن کی بلندی ’’سورہ ٔ بقرہ‘‘ہے، اس میں ایک آیت ہے جو قرآن کی(تمام )آیتوں
کی سردار ہے اور وہ( آیت) آیت الکرسی ہے۔(ترمذی،
کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ،۴ /
۴۰۲،
الحدیث:۲۸۸۷)
(5)…حضرت سہل بن سعد
ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے
دن کے وقت اپنے گھر میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی تو تین دن تک شیطان اس کے گھر
کے قریب نہیں آئے گا اورجس نے رات کے وقت اپنے گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی تو
تین راتیں ا س گھر میں شیطان داخل نہ ہو گا۔(شعب
الایمان، التاسع من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر سورۃ
البقرۃ۔۔۔ الخ،۲ / ۴۵۳، الحدیث:۲۳۷۸)
یہ قرآن پاک کی سب سے
بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بنی اسرائیل پر کئے گئے
انعامات،ان انعامات کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی ناشکری، بنی سرائیل کے جرائم
جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، سرکشی اور عناد کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے طرح طرح کے مطالبات کرنا،اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا،انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ناحق شہید کرنا اور عہد توڑناوغیرہ،گائے
ذبح کرنے کا واقعہ اورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود
یہودیوں کے باطل عقائد و نظریات اور ان کی خباثتوں کو بیان کیا گیا ہے اور
مسلمانوں کو یہودیوں کی دھوکہ دہی سے آگاہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ’’سورہ ٔبقرہ‘‘
میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں:
(1) … قرآن پاک کی
صداقت ،حقانیت اور اس کتاب کے ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔
(2) … قرآن پاک سے
حقیقی ہدایت حاصل کرنے والوں اور ان کے اوصاف کا بیان،ازلی کافروں کے ایمان سے
محروم رہنے اور منافقوں کی بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
(3) …قرآن پاک میں شک
کرنے والے کفار سے قرآن مجید کی سورت جیسی کوئی ایک سورت بنا کر لا نے کا مطالبہ
کیا گیا اور ان کے اس چیز سے عاجز ہونے کو بھی بیان کر دیاگیا۔
(4) …حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کا واقعہ
بیان کیا گیا اور فرشتوں کے سامنے ان کی شان کو ظاہر کیا گیا ہے۔
(5) …خانۂ کعبہ کی تعمیر
اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کا ذکر کیا گیاہے۔
(6) …اس سورت میں نبی
کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پسند کی وجہ سے قبلہ
کی تبدیلی اور اس تبدیلی پر ہونے والے اعتراضات و جوابات کا بیان ہے۔
(7) … عبادات اور
معاملات جیسے نماز قائم کرنے،زکوٰۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے،خانۂ کعبہ کا
حج کرنے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں
جہاد کرنے،دینی معاملات میں قمری مہینوں پر اعتماد کرنے،اللہ تعالیٰ
کی راہ میں مال خرچ کرنے،والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے،یتیموں کے ساتھ
معاملات کرنے،نکاح،طلاق،رضاعت، عدت ،بیویوں کے ساتھ اِیلاء کرنے،جادو،قتل،لوگوں کے
مال ناحق کھانے، شراب، سود،جوا اورحیض کی حالت میں بیویوں کے ساتھ صحبت کرنے وغیرہ
کے بارے میں مسلمانوں کو ایک شرعی دستور فراہم کیا گیا ہے۔
(8) …تابوت سکینہ ، طالوت
اور جالوت میں ہونے والی جنگ کا بیان ہے۔
(9) …مردوں کو زندہ کرنے
کے ثبوت پرحضرت عزیر عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا واقعہ ذکر کیا
گیا ہے۔
(10) …حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار پرندوں کے ذریعے مردوں کو زندہ کرنے
پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا
نظارہ کرو انے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(11) …اس سورت کے آخر
میں اللہتعالیٰ کی بارگاہ میں
رجوع کرنے،گناہوں سے توبہ کرنے اور کفار کے خلاف مدد طلب کرنے کی طرف مسلمانوں کو
توجہ دلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو قیامت کے دن سے ڈرایا گیا ہے۔
مناسبت
سورۂ فاتحہ کے ساتھ مناسبت:
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی
اپنے سے ماقبل سورت’’فاتحہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ میں
مسلمانوں کو یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی تھی’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ یعنی اے اللہ!ہم کو سیدھا راستہ چلا۔(فاتحہ:
۵) اور ’’سورۂ بقرہ‘‘ میں کامل ایمان والوں کے اوصاف ،مشرکین
اور منافقین کی نشانیاں ،یہودیوں اور عیسائیوں کا طرز عمل ، نیز معاشرتی زندگی کے
اصول اور احکام ذکر کر کے مسلمانوں کے لئے’’ صراطِ مستقیم ‘‘کو بیان کیا گیا ہے ۔