Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 259 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَوْ كَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰى قَرْیَةٍ وَّ هِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَاۚ-قَالَ اَنّٰى یُحْیٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَاۚ-فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗؕ-قَالَ كَمْ لَبِثْتَؕ-قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍؕ-قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ یَتَسَنَّهْۚ-وَ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًاؕ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۙ-قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(259)
تفسیر: صراط الجنان
{اَوْ كَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰى قَرْیَةٍ: یا اس کی طرح جس کا گزر ایک بستی پر ہوا۔ }اکثر مفسرین کے بقول اس آیت میں بیان کیا گیا واقعہ حضرتِ عُزَیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے اور بستی سے بیتُ المقدس مراد ہے۔
حضرتِ عُزَیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ:
جب بُخت نصر بادشاہ نے بیتُ المقدس کو ویران کیا اور بنی اسرائیل کو قتل و غارَتگَری کرکے تباہ کر ڈالا تو ایک مرتبہ حضرتِ عُزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا وہاں سے گزر ہوا، آپ کے ساتھ ایک برتن کھجور اور ایک پیالہ انگور کا رس تھا اور آپ ایک گدھے پر سوار تھے، تمام بستی میں پھرے لیکن کسی شخص کو وہاں نہ پایا، بستی کی عمارتیں گری ہوئی تھیں ، آپ نے تعجب سے کہا ’’اَنّٰى یُحْیٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا‘‘ اللہ تعالیٰ انہیں ان کی موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا۔ اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی سواری کے جانور کو وہاں باندھ دیا اور خود آرام فرمانے لگے، اسی حالت میں آپ کی روح قبض کر لی گئی اور گدھا بھی مرگیا۔ یہ صبح کے وقت کا واقعہ ہے، اس سے ستر برس بعد اللہ تعالیٰ نے ایران کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کو غلبہ دیا اور وہ اپنی فوجیں لے کر بیتُ المقدس پہنچا، اس کو پہلے سے بھی بہتر طریقے پر آباد کیا اور بنی اسرائیل میں سے جو لوگ باقی رہ گئے تھے وہ دوبارہ یہاں آکر بیتُ المقدس اور اس کے گردو نواح میں آباد ہوگئے اور ان کی تعداد بڑھتی رہی۔ اس پورے عرصے میں اللہ تعالیٰ نے حضرتِ عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ رکھا اور کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا، جب آپ کی وفات کو سوسال گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ کیا ،پہلے آنکھوں میں جان آئی، ابھی تک تمام جسم میں جان نہ آئی تھی۔ بقیہ جسم آپ کے دیکھتے دیکھتے زندہ کیا گیا۔ یہ واقعہ شام کے وقت غروبِ آفتاب کے قریب ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ عزیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا: تم یہاں کتنے دن ٹھہرے ؟ آپ نے اندازے سے عرض کیا کہ ایک دن یا اس سے کچھ کم وقت۔ آپ کا خیال یہ ہوا کہ یہ اسی دن کی شام ہے جس کی صبح کو سوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم یہاں ایک سو سال ٹھہرے ہو۔ اپنے کھانے اور پانی یعنی کھجور اور انگور کے رس کو دیکھوکہ ویسا ہی صحیح سلامت باقی ہے، اس میں بو تک پیدا نہیں ہوئی اور اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کا کیا حال ہے، چنانچہ آپ نے دیکھا کہ وہ مر چکا ہے، اس کا بدن گل گیا اور اعضاء بکھر گئے ہیں ، صرف سفید ہڈیاں چمک رہی تھیں۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے اس کے اعضاء جمع ہوئے، اعضاء اپنی اپنی جگہ پر آئے ،ہڈیوں پر گوشت چڑھا ،گوشت پر کھال آئی، بال نکلے پھر اس میں روح پھونکی گئی اور وہ اٹھ کھڑا ہوا اور آواز نکالنے لگا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر شئے پر قادر ہےیعنی یقین تو پہلے ہی تھا ، اب عینُ الْیَقین حاصل ہوگیا۔ پھر آپ اپنی اس سواری پر سوار ہو کر اپنے محلہ میں تشریف لائے سرِ اقدس اور داڑھی مبارک کے بال سفید تھے، عمر وہی چالیس سال کی تھی، کوئی آپ کو نہ پہچانتا تھا۔ اندازے سے اپنے مکان پر پہنچے، ایک ضعیف بڑھیا ملی جس کے پاؤں رہ گئے تھے، وہ نابینا ہوگئی تھی، وہ آپ کے گھر کی باندی تھی اور اس نے آپ کو دیکھا ہوا تھا، آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ یہ عُزیر کا مکان ہے اس نے کہا ہاں ، لیکن عُزیر کہاں ، انہیں تو غائب ہوئے سو سال گزر گئے۔ یہ کہہ کروہ خوب روئی۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: میں عُزیر ہوں ، اس نے کہا، سُبْحَانَ اللہ! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے سو سال موت کی حالت میں رکھ کر پھر زندہ کیا ہے۔ اس نے کہا، حضرت عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مُسْتَجابُ الدَّعْوات تھے، جو دعا کرتے قبول ہوتی، آپ دعا کیجئے کہ میری آنکھیں دوبارہ دیکھنا شروع کردیں تاکہ میں اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھوں۔ آپ نے دعا فرمائی اور وہ عورت بینا ہوگئی۔ آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا، خدا کے حکم سے اٹھ۔ یہ فرماتے ہی اس کے معذور پاؤں درست ہوگئے۔ اس نے آپ کو دیکھ کر پہچانا اور کہا میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ بے شک حضرتِ عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں۔ وہ آپ کو بنی اسرائیل کے محلے میں لے گئی، وہاں ایک مجلس میں آپ کے فرزند تھے جن کی عمر ایک سو اٹھارہ سال کی ہوچکی تھی اور آپ کے پوتے بھی تھے جو بوڑھے ہوچکے تھے۔ بڑھیا نے مجلس میں پکارا کہ یہ حضرت عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف لائے ہیں۔ اہلِ مجلس نے اس عورت کو جھٹلایا۔ اس نے کہا، مجھے دیکھو، ان کی دعا سے میری حالت ٹھیک ہوگئی ہے۔ لوگ اٹھے اور آپ کے پاس آئے، آپ کے فرزند نے کہا کہ میرے والد صاحب کے کندھوں کے درمیان سیاہ بالوں کا ایک ہلال یعنی چاند تھا، جسم مبارک کھول کر دکھایا گیا تو وہ موجود تھا، نیزاس زما نہ میں توریت کا کوئی نسخہ باقی نہ رہا تھا، کوئی اس کا جاننے والا موجود نہ تھا۔ آپ نے تمام توریت زبانی پڑھ دی۔ ایک شخص نے کہا کہ مجھے اپنے والد سے معلوم ہوا کہ بخت نصر کی ستم انگیزیوں کے بعد گرفتاری کے زمانہ میں میرے دادا نے توریت ایک جگہ دفن کردی تھی اس کا پتہ مجھے معلوم ہے اس پتہ پر جستجو کرکے توریت کا وہ دفن شدہ نسخہ نکالا گیا اور حضرت عُزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی یاد سے جو توریت لکھائی تھی اس سے مقابلہ کیا گیا تو ایک حرف کا فرق نہ تھا۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۹، ۱ / ۲۰۲-۲۰۳، جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۵۹، ۱ / ۳۲۵، ملتقطاً)