ترجمہ: کنزالایمان
بیشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر تو وہ جو ایمان لائے وہ تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے رہے کافر وہ کہتے ہیں ایسی کہاوت میں اللہ کا کیا مقصود ہے اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں ۔
ترجمہ: کنزالعرفان
بیشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کے لئے کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر۔ بہرحال ایمان والے تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور رہے کافر تو وہ کہتے ہیں ، اس مثال سے اللہ کی مراد کیا ہے؟ اللہ بہت سے لوگوں کواس کے ذریعے گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا فرماتا ہے اور وہ اس کے ذریعے صرف نافرمانوں ہی کو گمراہ کرتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{ اِنَّ اللّٰهَ لَا
یَسْتَحْیٖ:بیشک اللہ
اس سے حیا نہیں فرماتا۔}
جب اللہ
تعالیٰ نے ’’سورہ ٔبقرہ‘‘ (کے دوسرے رکوع ) میں منافقوں کی دو مثالیں بیان فرمائیں
تو منافقوں نے یہ اعتراض کیاکہ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بلند تر ہے کہ ایسی مثالیں
بیان فرمائے اور بعض علماء نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے کفار کے
معبودوں کی کمزوری کو مکڑی کے جالوں وغیرہ کی مثالوں سے بیان
فرمایا تو کافروں نے اس پر اعتراض کیا ۔اس کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر
کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۳۶۱،
طبری، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۲۱۳-۲۱۴،ملتقطاً)
چونکہ مثالوں کا بیان
حکمت کے مطابق اور مضمون کو دل نشین کرنے والا ہوتاہے اورماہرینِ کلام کا یہ طریقہ
ہے اس لیے مثال بیان کرنے پر اعتراض غلط ہے۔
{ یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًا:اللہ
بہت سے لوگوں کواس کے ذریعے گمراہ کرتا ہے۔}
ان الفاظ سے کافروں کو جواب دیا گیا کہ مثالیں بیان کرنے سے اللہ
تعالیٰ کا کیا مقصو دہے نیز مومنوں اور کافروں کے مقولے اس کی دلیل ہیں کہ قرآنی
مثالوں کے ذریعے بہت سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں جن کی عقلوں پر جہالت کا غلبہ ہوتاہے
اور جن کی عادت صرف ضد، مقابلہ بازی، انکار اور مخالفت ہوتی ہے اور کلام کے بالکل
معقول ، مناسب اور موقع محل کے مطابق ہونے کے باوجودوہ اس کا انکار کرتے ہیں اور
انہی مثالوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں
کو ہدایت دیتا ہے جو غور و تحقیق کے عادی ہوتے ہیں اور انصاف کے خلاف بات نہیں
کہتے، جو جانتے ہیں کہ حکمت یہی ہے کہ عظیم المرتبہ چیز کی مثال کسی قدر وقیمت
والی چیز سے اور حقیر چیز کی مثال کسی ادنیٰ شے سے دی جاتی ہے جیسا کہ اوپر آیت
نمبر17
میں حق کی مثال نور سے اور باطل کی مثال تاریکی سے دی گئی ہے۔ نزولِ قرآن کا اصل
مقصد تو ہدایت ہے لیکن چونکہ بہت سے لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے قرآن کو سن کر
گمراہ بھی ہوتے ہیں لہٰذا اس اعتبار سے فرمایا کہ قرآن کے ذریعے بہت سے لوگ گمراہ
ہوتے ہیں۔
{ وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ:اور وہ اس کے ذریعے صرف نافرمانوں ہی
کو گمراہ کرتا ہے۔}
شریعت میں ’’فاسق ‘‘اس نافرمان کو کہتے ہیں جو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو۔ فسق کے تین
درجے ہیں ایک تَغَابِی وہ یہ کہ آدمی اتفاقیہ کسی کبیرہ
گناہ کا مرتکب ہوجائے اور اس کو برا ہی جانتا رہا۔دوسرا اِنْہِمَاک کہ کبیرہ گناہوں کا عادی ہوگیا اور اس سے بچنے کی پروا نہیں کرتا۔ تیسرا جُحُوْد
کہ حرام کو اچھا جان کر ارتکاب کرے اس درجہ والا ایمان سے محروم ہوجاتا ہے۔ پہلے
دو درجوں میں جب تک سب سے بڑے کبیرہ گناہ یعنی کفر و شرک کا ارتکاب نہ کرے وہ مومن
و مسلمان ہے۔مذکورہ آیت میں فاسقین سے وہی نافرمان مراد ہیں جو ایمان سے خارج
ہوگئے۔(روح
البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۸۸)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہی ’’سورۂ
بقرہ‘‘ نازل ہوئی ۔(اس
سے مراد ہے کہ جس سورت کی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔) (خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ،۱ /
۱۹)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 40 رکوع
اور286آیتیں ہیں۔
’’بقرہ‘‘ نام رکھے جانے
کی وجہ:
عربی میں گائے کو
’’ بَقَرَۃٌ‘‘کہتے ہیں اور اس
سورت کے آٹھویں اور نویں رکوع کی آیت نمبر67تا73 میں بنی اسرائیل کی ایک
گائے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اُس کی مناسبت سے اِسے ’’سورۂ بقرہ ‘‘کہتے
ہیں۔
احادیث میں اس سورت کے بے
شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 5فضائل درج ذیل ہیں :
(1) …حضرت ابو اُمامہ
باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،نبی
کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن
پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنی تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے
گا اور دو روشن سورتیں (یعنی) ’’سورہ ٔبقرہ ‘‘اور’’سورۂ اٰل عمران‘‘ پڑھا کرو
کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جس طرح دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں
یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی
شفاعت کریں گی،’’سورۂ بقرہ‘‘ پڑھا کرو کیونکہ ا س کو پڑھتے رہنے میں برکت ہے اور
نہ پڑھنے میں (ثواب سے محروم رہ جانے پر) حسرت ہے اور جادو گر اس کا مقابلہ کرنے
کی طاقت نہیں رکھتے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ
القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳، الحدیث: ۲۵۲(۸۰۴))
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ
بناؤ(یعنی اپنے گھروں میں عبادت کیا کرو) اور شیطان ا س گھر سے بھاگتا ہے جس میں
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی جاتی ہے۔(مسلم، کتاب صلاۃ
المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ۔۔۔الخ، ص۳۹۳،الحدیث:۲۱۲(۷۸۰))
(3) …حضرت ابو
مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ
دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو
شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے گا تو وہ اسے(ناگہانی مصائب سے)
کافی ہوں گی۔(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل البقرۃ،۳ /
۴۰۵،
الحدیث:۵۰۰۹)
(4) …حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ ہر چیز کی ایک بلندی ہے اور
قرآن کی بلندی ’’سورہ ٔ بقرہ‘‘ہے، اس میں ایک آیت ہے جو قرآن کی(تمام )آیتوں
کی سردار ہے اور وہ( آیت) آیت الکرسی ہے۔(ترمذی،
کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ،۴ /
۴۰۲،
الحدیث:۲۸۸۷)
(5)…حضرت سہل بن سعد
ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے
دن کے وقت اپنے گھر میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی تو تین دن تک شیطان اس کے گھر
کے قریب نہیں آئے گا اورجس نے رات کے وقت اپنے گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی تو
تین راتیں ا س گھر میں شیطان داخل نہ ہو گا۔(شعب
الایمان، التاسع من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر سورۃ
البقرۃ۔۔۔ الخ،۲ / ۴۵۳، الحدیث:۲۳۷۸)
یہ قرآن پاک کی سب سے
بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بنی اسرائیل پر کئے گئے
انعامات،ان انعامات کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی ناشکری، بنی سرائیل کے جرائم
جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، سرکشی اور عناد کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے طرح طرح کے مطالبات کرنا،اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا،انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ناحق شہید کرنا اور عہد توڑناوغیرہ،گائے
ذبح کرنے کا واقعہ اورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود
یہودیوں کے باطل عقائد و نظریات اور ان کی خباثتوں کو بیان کیا گیا ہے اور
مسلمانوں کو یہودیوں کی دھوکہ دہی سے آگاہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ’’سورہ ٔبقرہ‘‘
میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں:
(1) … قرآن پاک کی
صداقت ،حقانیت اور اس کتاب کے ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔
(2) … قرآن پاک سے
حقیقی ہدایت حاصل کرنے والوں اور ان کے اوصاف کا بیان،ازلی کافروں کے ایمان سے
محروم رہنے اور منافقوں کی بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
(3) …قرآن پاک میں شک
کرنے والے کفار سے قرآن مجید کی سورت جیسی کوئی ایک سورت بنا کر لا نے کا مطالبہ
کیا گیا اور ان کے اس چیز سے عاجز ہونے کو بھی بیان کر دیاگیا۔
(4) …حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کا واقعہ
بیان کیا گیا اور فرشتوں کے سامنے ان کی شان کو ظاہر کیا گیا ہے۔
(5) …خانۂ کعبہ کی تعمیر
اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کا ذکر کیا گیاہے۔
(6) …اس سورت میں نبی
کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پسند کی وجہ سے قبلہ
کی تبدیلی اور اس تبدیلی پر ہونے والے اعتراضات و جوابات کا بیان ہے۔
(7) … عبادات اور
معاملات جیسے نماز قائم کرنے،زکوٰۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے،خانۂ کعبہ کا
حج کرنے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں
جہاد کرنے،دینی معاملات میں قمری مہینوں پر اعتماد کرنے،اللہ تعالیٰ
کی راہ میں مال خرچ کرنے،والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے،یتیموں کے ساتھ
معاملات کرنے،نکاح،طلاق،رضاعت، عدت ،بیویوں کے ساتھ اِیلاء کرنے،جادو،قتل،لوگوں کے
مال ناحق کھانے، شراب، سود،جوا اورحیض کی حالت میں بیویوں کے ساتھ صحبت کرنے وغیرہ
کے بارے میں مسلمانوں کو ایک شرعی دستور فراہم کیا گیا ہے۔
(8) …تابوت سکینہ ، طالوت
اور جالوت میں ہونے والی جنگ کا بیان ہے۔
(9) …مردوں کو زندہ کرنے
کے ثبوت پرحضرت عزیر عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا واقعہ ذکر کیا
گیا ہے۔
(10) …حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار پرندوں کے ذریعے مردوں کو زندہ کرنے
پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا
نظارہ کرو انے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(11) …اس سورت کے آخر
میں اللہتعالیٰ کی بارگاہ میں
رجوع کرنے،گناہوں سے توبہ کرنے اور کفار کے خلاف مدد طلب کرنے کی طرف مسلمانوں کو
توجہ دلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو قیامت کے دن سے ڈرایا گیا ہے۔
مناسبت
سورۂ فاتحہ کے ساتھ مناسبت:
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی
اپنے سے ماقبل سورت’’فاتحہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ میں
مسلمانوں کو یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی تھی’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ یعنی اے اللہ!ہم کو سیدھا راستہ چلا۔(فاتحہ:
۵) اور ’’سورۂ بقرہ‘‘ میں کامل ایمان والوں کے اوصاف ،مشرکین
اور منافقین کی نشانیاں ،یہودیوں اور عیسائیوں کا طرز عمل ، نیز معاشرتی زندگی کے
اصول اور احکام ذکر کر کے مسلمانوں کے لئے’’ صراطِ مستقیم ‘‘کو بیان کیا گیا ہے ۔