banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 262 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَاۤ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًىۙ-لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(262)

ترجمہ: کنزالایمان وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر دیئے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کانیگ ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔ ترجمہ: کنزالعرفان وہ لوگ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر اپنے خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں اور نہ تکلیف دیتے ہیں ان کا انعام ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ: وہ لوگ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔} شانِ نزول : یہ آیت حضرتِ عثمانِ غنی اور حضرتِ عبدالرحمٰن بن عو ف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے حق میں نازل ہوئی، حضرتِ عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر لشکرِ اسلام کے لئے ایک ہزار اونٹ بمع سازوسامان کے پیش کئے اور حضرتِ عبدالرحمٰن بن عوف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے چار ہزار درہم صدقہ کے طور پربارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر کئے اور عرض کیا کہ میرے پاس کل آٹھ ہزار درہم تھے، ان میں سے آدھے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے ر کھ لیے اور آدھے راہِ خدا میں پیش کردئیے ہیں۔ سرکارِدوعالم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ جو تم نے دیئے اور جو تم نے رکھے اللہ تعالیٰ دونوں میں برکت فرمائے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶۲، ۱ / ۲۰۶)

{مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًى: نہ احسان جتائیں اور نہ تکلیف دیں۔} صدقہ دینے کے بعداحسان جتلانا اور جسے صدقہ دیا اسے تکلیف دینا ناجائز و ممنوع ہے اور اس سے صدقے کا ثواب ضائع ہوجاتا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ آیت 264 میں فرمایا کہ احسان جتلا کر اور ایذاء دے کر اپنے صدقات کو باطل نہ کرو۔ احسان جتلانا تو یہ ہے کہ دینے کے بعد دوسروں کے سامنے اظہار کریں کہ ہم نے تیرے ساتھ ایسے ایسے سلوک کئے اور یوں اس کا دل میلا کریں اور تکلیف دینا یہ ہے کہ اس کو عار دلائیں کہ تونادار تھا، مفلِس تھا، مجبور تھا، نکما تھا ہم نے تیری خبر گیری کی یا اور طرح اُس پر دباؤ ڈالیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶۲، ۱ / ۲۰۶)