ترجمہ: کنزالایمان
ان فقیروں کے لئے جو راہِ خدا میں روکے گئے زمین میں چل نہیں سکتے نادان انہیں تَوَنگَر سمجھے بچنے کے سبب تو انہیں ان کی صورت سے پہچان لے گا لوگوں سے سوال نہیں کرتے کہ گڑ گڑانا پڑے اور تم جو خیرات کرو اللہ اسے جانتا ہے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
ان فقیروں کے لئے جو اللہ کے راستے میں روک دئیے گئے ، وہ زمین میں چل پھرنہیں سکتے۔ ناواقف انہیں سوال کرنے سے بچنے کی وجہ سے مالدار سمجھتے ہیں ۔ تم انہیں ان کی علامت سے پہچان لو گے۔ وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے اور تم جو خیرات کرو اللہ اسے جانتا ہے۔
تفسیر: صراط الجنان
{لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ
سَبِیْلِ اللّٰهِ: ان فقیروں کے لئے جو اللہ کے راستے میں روک
دئیے گئے۔} گزشتہ آیات میں صدقہ دینے کی ترغیب دی گئی یہاں بتایا گیا
کہ ان کا بہترین مصرف وہ فقراء ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو جہاد اور طاعتِ الٰہی
کیلئے رو ک رکھا ہے۔ یہ آیت اہلِ صُفّہ کے حق میں نازل ہوئی ۔ان حضرات کی تعداد
چار سو کے قریب تھی، یہ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے تھے ۔یہاں نہ ان کا مکان
تھا اورنہ کنبہ قبیلہ اور نہ ان حضرات نے شادی کی تھی، ان کے تمام اوقات عبادت میں صرف ہوتے تھے ،رات میں قرآنِ کریم سیکھنا دن میں
جہاد کے کام میں رہنا ان کا شب و روز کا معمول تھا۔(خازن،
البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۷۳، ۱ / ۲۱۳)
انہی حضرات کی صف میں
وہ مشائخ و علماء و طلبہ و مبلغین و خادمینِ دین داخل ہیں جو دینی کاموں میں
مشغولیت کی وجہ سے کمانے کی فرصت نہیں پاتے۔ یہ لوگ اپنی عزت و وقار اور مروت کی
وجہ سے لوگوں سے سوال بھی نہیں کرپاتے اور اپنے فقر کو چھپانے کی بھی کوشش کرتے
ہیں جس کی وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا گزارا بہت اچھا ہورہا ہے لیکن حقیقتِ
حال اس کے برعکس ہوتی ہے۔ اگر کچھ غور سے دیکھا جائے تو ان لوگوں کی زندگی کا مشقت
سے بھرپور ہونا بہت سی علامات و قرائن سے معلوم
ہوجائے گا۔ ان کے مزاج میں تواضع اور انکسا ری ہوگی ،چہرے پر ضعف کے آثار ہوں گے
اور بھوک سے رنگ زرد ہوں گے۔ درس: ہمارے ہاں دین کے اس طرح کے
خادموں کی کمی نہیں اور ان کی غربت و محتاجی کے باوجود انہیں مالدار سمجھنے والے
ناواقفوں اور جاہلوں کی بھی کمی نہیں۔ شاید ہمارے زمانے کا سب سے مظلوم طبقہ یہی
ہوتا ہے۔ اس چیز کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو عالم اس لئے
نہیں بناتے کہ یہ کھائیں گے کہاں سے؟ جب اس
بات کا علم ہے تو یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ جو علماء و خادمینِ دین موجود ہیں وہ
کیسے گزارا کر رہے ہوں گے؟ اصحابِ صفہ کی حالت
پر مذکورہ آیت مبارکہ کا نزول صرف کوئی تاریخی واقعہ بیان کرنے کیلئے نہیں ہے
بلکہ ہمیں سمجھانے، نصیحت کرنے اور ترغیب دینے کیلئے ہے۔ علماء و مُبَلِّغین کی
گھروں کی پریشانیاں ختم کردیں پھر دیکھیں کہ دین کا کام کیسی تیزی سے ہوتا ہے۔
سمجھنے کیلئے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ کے ان دس نکات کو پڑھ لیں
جن میں بار بار علماء کی معاشی حالت سدھارنے کا تذکرہکرنے کے بعد فرمایا: ’’مولانا!
روپیہ ہونے کی صورت میں اپنی قوت پھیلانے کے علاوہ گمراہوں کی طاقتیں توڑنا بھی اِنْ شَآءَ اللہ الْعَزِیز آسان ہوگا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ گمراہوں کے بہت سے افراد صرف
تنخواہوں کے لالچ سے زہر اگلتے پھرتے
ہیں۔ ان میں جسے دس کی جگہ بارہ دیجئے اب آپ کی سی کہے گا، یا کم از کم بہ لقمہ
دوختہ بہ توہوگا۔دیکھئے حدیث کا ارشاد
کیسا صادق ہے کہ’’آخر زمانہ میں دین کا کام بھی درہم و دینار سے چلے گا۔(معجم
الکبیر، ۲۰ / ۲۷۹، الحدیث: ۶۶۰)
اور کیوں نہ صادق ہو کہ
صادق و مصدوق
صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا کلام ہے، عالِم ما
کان و مایکونصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ
وَسَلَّمَ کی
خبرہے۔(فتاوی
رضویہ، ۲۹ / ۵۹۹-۶۰۰)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہی ’’سورۂ
بقرہ‘‘ نازل ہوئی ۔(اس
سے مراد ہے کہ جس سورت کی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔) (خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ،۱ /
۱۹)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 40 رکوع
اور286آیتیں ہیں۔
’’بقرہ‘‘ نام رکھے جانے
کی وجہ:
عربی میں گائے کو
’’ بَقَرَۃٌ‘‘کہتے ہیں اور اس
سورت کے آٹھویں اور نویں رکوع کی آیت نمبر67تا73 میں بنی اسرائیل کی ایک
گائے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اُس کی مناسبت سے اِسے ’’سورۂ بقرہ ‘‘کہتے
ہیں۔
احادیث میں اس سورت کے بے
شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 5فضائل درج ذیل ہیں :
(1) …حضرت ابو اُمامہ
باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،نبی
کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن
پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنی تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے
گا اور دو روشن سورتیں (یعنی) ’’سورہ ٔبقرہ ‘‘اور’’سورۂ اٰل عمران‘‘ پڑھا کرو
کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جس طرح دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں
یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی
شفاعت کریں گی،’’سورۂ بقرہ‘‘ پڑھا کرو کیونکہ ا س کو پڑھتے رہنے میں برکت ہے اور
نہ پڑھنے میں (ثواب سے محروم رہ جانے پر) حسرت ہے اور جادو گر اس کا مقابلہ کرنے
کی طاقت نہیں رکھتے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ
القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳، الحدیث: ۲۵۲(۸۰۴))
(2)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ
بناؤ(یعنی اپنے گھروں میں عبادت کیا کرو) اور شیطان ا س گھر سے بھاگتا ہے جس میں
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی جاتی ہے۔(مسلم، کتاب صلاۃ
المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ۔۔۔الخ، ص۳۹۳،الحدیث:۲۱۲(۷۸۰))
(3) …حضرت ابو
مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ
دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو
شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے گا تو وہ اسے(ناگہانی مصائب سے)
کافی ہوں گی۔(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل البقرۃ،۳ /
۴۰۵،
الحدیث:۵۰۰۹)
(4) …حضرت ابو
ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ ہر چیز کی ایک بلندی ہے اور
قرآن کی بلندی ’’سورہ ٔ بقرہ‘‘ہے، اس میں ایک آیت ہے جو قرآن کی(تمام )آیتوں
کی سردار ہے اور وہ( آیت) آیت الکرسی ہے۔(ترمذی،
کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ،۴ /
۴۰۲،
الحدیث:۲۸۸۷)
(5)…حضرت سہل بن سعد
ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے
دن کے وقت اپنے گھر میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی تو تین دن تک شیطان اس کے گھر
کے قریب نہیں آئے گا اورجس نے رات کے وقت اپنے گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی تو
تین راتیں ا س گھر میں شیطان داخل نہ ہو گا۔(شعب
الایمان، التاسع من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر سورۃ
البقرۃ۔۔۔ الخ،۲ / ۴۵۳، الحدیث:۲۳۷۸)
یہ قرآن پاک کی سب سے
بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بنی اسرائیل پر کئے گئے
انعامات،ان انعامات کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی ناشکری، بنی سرائیل کے جرائم
جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، سرکشی اور عناد کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے طرح طرح کے مطالبات کرنا،اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا،انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ناحق شہید کرنا اور عہد توڑناوغیرہ،گائے
ذبح کرنے کا واقعہ اورنبی کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود
یہودیوں کے باطل عقائد و نظریات اور ان کی خباثتوں کو بیان کیا گیا ہے اور
مسلمانوں کو یہودیوں کی دھوکہ دہی سے آگاہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ’’سورہ ٔبقرہ‘‘
میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں:
(1) … قرآن پاک کی
صداقت ،حقانیت اور اس کتاب کے ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔
(2) … قرآن پاک سے
حقیقی ہدایت حاصل کرنے والوں اور ان کے اوصاف کا بیان،ازلی کافروں کے ایمان سے
محروم رہنے اور منافقوں کی بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
(3) …قرآن پاک میں شک
کرنے والے کفار سے قرآن مجید کی سورت جیسی کوئی ایک سورت بنا کر لا نے کا مطالبہ
کیا گیا اور ان کے اس چیز سے عاجز ہونے کو بھی بیان کر دیاگیا۔
(4) …حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کا واقعہ
بیان کیا گیا اور فرشتوں کے سامنے ان کی شان کو ظاہر کیا گیا ہے۔
(5) …خانۂ کعبہ کی تعمیر
اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کا ذکر کیا گیاہے۔
(6) …اس سورت میں نبی
کریمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پسند کی وجہ سے قبلہ
کی تبدیلی اور اس تبدیلی پر ہونے والے اعتراضات و جوابات کا بیان ہے۔
(7) … عبادات اور
معاملات جیسے نماز قائم کرنے،زکوٰۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے،خانۂ کعبہ کا
حج کرنے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں
جہاد کرنے،دینی معاملات میں قمری مہینوں پر اعتماد کرنے،اللہ تعالیٰ
کی راہ میں مال خرچ کرنے،والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے،یتیموں کے ساتھ
معاملات کرنے،نکاح،طلاق،رضاعت، عدت ،بیویوں کے ساتھ اِیلاء کرنے،جادو،قتل،لوگوں کے
مال ناحق کھانے، شراب، سود،جوا اورحیض کی حالت میں بیویوں کے ساتھ صحبت کرنے وغیرہ
کے بارے میں مسلمانوں کو ایک شرعی دستور فراہم کیا گیا ہے۔
(8) …تابوت سکینہ ، طالوت
اور جالوت میں ہونے والی جنگ کا بیان ہے۔
(9) …مردوں کو زندہ کرنے
کے ثبوت پرحضرت عزیر عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کا واقعہ ذکر کیا
گیا ہے۔
(10) …حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار پرندوں کے ذریعے مردوں کو زندہ کرنے
پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا
نظارہ کرو انے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔
(11) …اس سورت کے آخر
میں اللہتعالیٰ کی بارگاہ میں
رجوع کرنے،گناہوں سے توبہ کرنے اور کفار کے خلاف مدد طلب کرنے کی طرف مسلمانوں کو
توجہ دلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو قیامت کے دن سے ڈرایا گیا ہے۔
مناسبت
سورۂ فاتحہ کے ساتھ مناسبت:
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی
اپنے سے ماقبل سورت’’فاتحہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ میں
مسلمانوں کو یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی تھی’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ یعنی اے اللہ!ہم کو سیدھا راستہ چلا۔(فاتحہ:
۵) اور ’’سورۂ بقرہ‘‘ میں کامل ایمان والوں کے اوصاف ،مشرکین
اور منافقین کی نشانیاں ،یہودیوں اور عیسائیوں کا طرز عمل ، نیز معاشرتی زندگی کے
اصول اور احکام ذکر کر کے مسلمانوں کے لئے’’ صراطِ مستقیم ‘‘کو بیان کیا گیا ہے ۔