Home ≫ ur ≫ Surah Al Baqarah ≫ ayat 37 ≫ Translation ≫ Tafsir
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(37)
تفسیر: صراط الجنان
{فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ: پھر آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھ لئے۔ }حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے:
رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
’’اے ہمارے رب !ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تُو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘
اور اس کے ساتھ یہ روایت بھی ہے جوحضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے،نبیٔ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اجتہادی خطا ہوئی تو(عرصۂ دراز تک حیران و پریشان رہنے کے بعد )انہوں نے بارگاہِ الہٰی میں عرض کی: اے میرے رب!عَزَّوَجَلَّ، مجھے محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے میں معاف فرمادے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)کو کیسے پہچانا حالانکہ ابھی تو میں نے اسے پیدا بھی نہیں کیا؟حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! جب تو نے مجھے پیدا کر کے میرے اندر روح ڈالی اور میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو میں نے عرش کے پایوں پر ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘لکھا دیکھا،تو میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ملایا ہے جو تجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے سچ کہا، بیشک وہ تمام مخلوق میں میری بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ تم اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کرو میں تمہیں معاف کردوں گا اور اگر محمد(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا۔(مستدرک،ومن کتاب آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التی فی دلائل النبوۃ، استغفارآدم علیہ السلام بحق محمدصلی اللہ علیہ وسلم،۳ / ۵۱۷، الحدیث:۴۲۸۶، معجم الاوسط، من اسمہ محمد،۵ / ۳۶، الحدیث: ۶۵۰۲، دلائل النبوۃ للبیہقی، جماع ابواب غزوۃ تبوک، باب ماجاء فی تحدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ۶ / ۴۸۹)
بارگاہِ الہٰی کے مقبول بندوں کے وسیلے سے دعا مانگنا جائز ہے:
اس روایت سے یہ بھی ثابت ہے کہ مقبولان بارگاہ کے وسیلہ سے ،بَحق فلاں اور بَجاہ ِ فلاں کے الفاظ سے دعا مانگنا جائز اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔یہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ پر کسی کا حق واجب نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے مقبولوں کو اپنے فضل و کرم سے حق دیتا ہے اور اسی فضل و کرم والے حق کے وسیلہ سے دعا کی جاتی ہے ۔ اس طرح کا حق صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسے بخاری میں ہے ’’مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّاعَلَی اﷲِ اَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ‘‘جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھے اور نماز قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے۔(بخاری،کتاب الجھادوالسیر، باب درجات المجاھدین فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ۲ / ۲۵۰، الحدیث: ۲۷۹۰)
توبہ کا مفہوم اور اس کے ارکان:
آیت میں توبہ کا لفظ ہے ۔ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کیلئے آئے تو اس کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کا اپنی رحمت کے ساتھ بندے پر رجوع کرنا ہے یا بندے کی توبہ قبول کرنا ہے اور یہ لفظ جب بندے کیلئے آئے تو دوسرے مفہوم میں ہے ۔توبہ کا اصل مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ہے۔ امام نووی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کا خلاصہ ہے کہ توبہ کی تین شرائط ہیں : (۱) گناہ سے رک جانا ،(۲) گناہ پر شرمندہ ہونا، (۳) گناہ کو چھوڑ دینے کا پختہ ارادہ کرنا۔ اگر گناہ کی تلافی اور تدارک ہو سکتا ہو تو وہ بھی ضروری ہے۔(ریاض الصالحین، باب التوبۃ، ص۵)
جیسے اگر کسی نے نماز یں چھوڑی ہوں تواس کی توبہ کیلئے پچھلی نمازوں کی قضا پڑھنا بھی ضروری ہے ۔ یونہی کسی نے دوسرے کا مال چوری یا غصب یا رشوت کے طور پر لیا ہے تو توبہ کیلئے مال واپس کرنا بھی ضروری ہے۔