banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 44 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(44)

ترجمہ: کنزالایمان کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں ۔ ترجمہ: کنزالعرفان کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اوراپنے آپ کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ:کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو؟}یہ آیت مبارکہ ان یہودی علماء کے بارے میں ہے جن سے ان کے مسلمان رشتہ داروں نے دینِ اسلام کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: تم اس دین پر قائم رہو، محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  کا دین حق اور کلام سچا ہے ۔ یاان یہودیوں کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مشرکینِ عرب کو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مبعوث ہونے کی خبر دی تھی اور حضور پرنورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیروی کرنے کی ہدایت کی تھی ،پھر جب حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مبعوث ہوئے تو یہ ہدایت کرنے والے حسد سے خود کافر ہوگئے تو انہیں فرمایا گیا کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھلاتے ہو۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱ / ۵۰)یاد رہے کہ اس آیت کا شانِ نزول خاص ہونے کے باوجود حکم عام ہے اور ہر نیکی کا حکم دینے والے کیلئے اس میں تازیانہ عبرت ہے ۔

قول و فعل کے تضاد کا نقصان:

            یہاں ایک بات ذہن نشین رکھیں کہ معمولی فساد اس وقت بہت بڑے فتنے اور تباہی کی شکل اختیار کرلیتا ہے جب اس کا ارتکاب کرنے والے خود وہ لوگ ہوں جو دوسروں کوتو بھلائی کا حکم دیتے ہوں لیکن جب ان کے عمل سے پردہ اُٹھے تو معلوم ہو کہ گناہوں کے سب سے بڑے مریض یہی ہیں ،انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قول و فعل کا تضاد اور خلوت و جلوت کا فرق دنیا و آخرت دونوں لئے بہت نقصان دہ ہے ،دنیا میں تو یہ اس قدر نقصان دہ ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی کے متعلق یہ تضاد ثابت ہوجائے تو لوگ زندگی بھر اسے منہ لگانا پسند نہیں کرتے بلکہ ایسوں کے عمل کو دیکھ کر نجانے کتنے لوگ ہمیشہ کیلئے دین ہی سے متنفر ہوجاتے ہیں ،اور آخرت میں ا س کا نقصان کتنا زیادہ ہے اس کا اندازہ اس روایت اور حکایت سے خود ہی لگا لیجئے ،چنانچہ

            حضرت عدی بن حاتم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا ’’قیامت کے دن کچھ لوگوں کو جنت کی طرف لے جانے کا حکم ہو گا، یہاں تک کہ جب وہ جنت کے قریب پہنچ کر اس کی خوشبو سونگھیں گے ، اس کے محلات اور ا س میں اہل جنت کے لئے اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ نعمتیں دیکھ لیں گے، تو ندا دی جائے گی :انہیں جنت سے لوٹا دو کیونکہ ان کا جنت میں کوئی حصہ نہیں۔ (یہ ندا سن کر) وہ ایسی حسرت کے ساتھ لوٹیں گے کہ اس جیسی حسرت کے ساتھ ان سے پہلے لوگ نہ لوٹیں ہوں گے، پھر وہ عرض کریں گے :’’یارب عَزَّوَجَلَّ! اگر تو اپنا ثواب اور اپنے اولیاء کے لئے تیار کردہ نعمتیں دکھانے سے پہلے ہی ہمیں جہنم میں داخل کر دیتا تو یہ ہم پر زیادہ آسان ہوتا۔اللہ  تعالیٰ  ارشاد فرمائے گا ’’ میں نے ارادۃً تمہارے ساتھ ایسا کیا ہے(اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ ) جب تم تنہائی میں ہوتے تو بڑے بڑے گناہ کر کے میرے ساتھ اعلانِ جنگ کرتے اور جب لوگوں سے ملتے تو عاجزی و انکساری کے ساتھ ملتے تھے، تم لوگوں کو اپنی وہ حالت دکھاتے تھے جو تمہارے دلوں میں میرے لئے نہیں ہوتی تھی، تم لوگوں سے ڈرتے اور مجھ سے نہیں ڈرتے تھے، تم لوگوں کی عزت کرتے اور میری عزت نہ کرتے تھے،تم لوگوں کی وجہ سے برا کام کرنا چھوڑ دیتے لیکن میری وجہ سے برائی نہ چھوڑتے تھے، آج میں تمہیں اپنے ثواب سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عذاب کا مزہ بھی چکھاؤں گا۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، ۴ / ۱۳۵-۱۳۶، الحدیث: ۵۴۷۸)

             اورحضرت ابراہیم تیمی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میں موت اور( مرنے کے بعد ہڈیوں کی ) بوسیدگی کو یادکرنے کے لئے کثرت سے قبرستان میں آتا جاتاتھا، ایک رات میں قبرستان میں تھا کہ مجھ پر نیند غالب آگئی اور میں سو گیا تو میں نے خواب میں ایک کھلی ہوئی قبر دیکھی اور ایک کہنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا ’’یہ زنجیر پکڑو اور اس کے منہ میں داخل کر کے اس کی شرمگاہ سے نکالو۔ تو وہ مردہ کہنے لگا: ’’یا رب عَزَّوَجَلَّ! کیا میں نے قرآن نہیں پڑھا ؟ کیا میں نے تیرے حرمت والے گھر کاحج نہیں کیا؟ پھر وہ اسی طرح ایک کے بعد دوسری نیکی گنوانے لگا تو میں نے سنا ’’تو لوگوں کے سامنے یہ اعمال کیاکرتا تھا لیکن جب توتنہائی میں ہوتا تو نافرمانیوں کے ذریعے مجھ سے مقابلہ کرتا اور تم نے میرا کچھ خیال نہ کیا۔(الزواجر عن اقتراف الکبائر، خاتمۃ فی التحذیر من جملۃ المعاصی۔۔۔ الخ، ۱ / ۳۱ )

بے عمل بھی نیکی کی دعوت دے:

          یاد رہے کہ اس آیت کی مراد وعظ و نصیحت کرنے والوں کو تقویٰ و پرہیزگاری پر ابھارنا ہے ، بے عمل کو وعظ سے منع کرنا مقصود نہیں ، یعنی یہ فرمایا ہے کہ جب دوسروں کو وعظ و نصیحت کرتے ہو تو خود بھی عمل کرو، یہ نہیں فرمایا کہ جب عمل نہیں کرتے تو وعظ و نصیحت کیوں کرتے ہو؟ کیونکہ عمل کرنا ایک واجب ہے اور دوسروں کو برائی سے روکنا دوسرا واجب ہے ۔ اگر ایک واجب پر عمل نہیں تو دوسرے سے کیوں رُکا جائے۔         (بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱ / ۳۱۶)

             حضرت انس بن مالک  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ،ہم نے عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہم اس وقت تک (دوسروں کو) نیک اعمال کرنے کی دعوت نہ دیں جب تک ہم خود تمام نیک اعمال نہ کرنے لگ جائیں اور ہم اس وقت تک(لوگوں کو)برے کاموں سے منع نہ کریں جب تک ہم خود تمام برے کاموں سے رک نہ جائیں ؟ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’(ایسا نہ کرو) بلکہ تم نیک اعمال کرنے کاحکم دو اگرچہ تم خود تمام نیک اعمال نہیں کرتے اور برے اعمال کرنے سے منع کرو اگرچہ تم تمام برے اعمال سے باز نہیں آئے۔(معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد،۵ / ۷۷، الحدیث: ۶۶۲۸)