banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 47 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(47)

ترجمہ: کنزالایمان اے اولادِیعقوب یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ اس سارے زمانہ پر تمہیں بڑائی دی ۔ ترجمہ: کنزالعرفان اے یعقوب کی اولاد!یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ میں نے تمہیں اس سارے زمانے پر فضیلت عطا فرمائی۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ:اے یعقوب کی اولاد! میرا احسان یاد کرو۔}یہاں سے ایک بار پھر بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد کرنے کاحکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت ترک کرنے سے ڈریں اور ان پر حجت پوری ہو جائے۔              (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۴۵، ۱ / ۵۰)

            یاد رہے کہ ان آیات میں بنی اسرائیل کے ان لوگوں سے خطاب کیاجا رہا ہے جو سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس زمانے میں موجود تھے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں یاد کرنے کا حکم دیاجارہا ہے وہ یہ ہیں :

 (1)…تمام اہلِ زمانہ پر فضیلت و برتری،(2)…دریامیں راستہ بن جانا،(3)…فرعون سے نجات، (4) … تورات کا عطا ہونا، (5)…بچھڑے کی پوجا پر معافی مل جانا، (6)…ایک گروہ کا مرنے کے بعد زندہ کیا جانا، (7)…بادلوں سے سایہ ملنا، (8)…مَن و سَلویٰ نازل ہونا، (9)…پانی کے بارہ چشمے جاری ہوجانا، (10)…زمینی اناج عطا کیا جانا وغیرہ، یہ تمام نعمتیں ان کے آباؤ اجداد کو عطا کی گئی تھیں اور چونکہ جو نعمت آباؤ اجداد کو ملی ہو وہ ان کی اولاد کے حق میں بھی نعمت ہوتی ہے ا س لئے ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے یعقوب کی اولاد! میرا وہ احسان یاد کروجو میں نے تم پر کیا اور میرے حبیب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی پیروی کر کے اور ان کے دین میں داخل ہو کر میری ان نعمتوں کا شکر ادا کرو۔‘‘ بنی اسرائیل کی نعمتوں کو سامنے رکھ کر امت ِ محمدیہ پر ہونے والے انعامات کو شمار کریں توہم سمجھ سکتے ہیں کہ شکرگزاری کا تقاضا ہم سے کس قدر مطلوب ہے۔

{اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ:میں نے تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔}اس سے مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی گئی ،اور جب حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی آمد ہوئی تو یہ فضیلت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کی طرف منتقل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کو سب امتوں سے افضل بنا دیاجیسا کہ ارشاد فرمایا:

’’كُنْتُمْ  خَیْرَ  اُمَّةٍ  اُخْرِجَتْ  لِلنَّاسِ‘‘ (اٰل عمران: ۱۱۰)

ترجمۂ   کنزُالعِرفان:(اے مسلمانو!)تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت )کے لئے ظاہر کی گئی۔