banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 50 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ(50)

ترجمہ: کنزالایمان اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا پھاڑ دیا تو تمہیں بچالیا اور فرعون والوں کو تمہاری آنکھوں کے سامنے ڈبو دیا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور(یاد کرو) جب ہم نے تمہارے لئے دریا کوپھاڑ دیا تو ہم نے تمہیں بچالیا اور فرعونیوں کو تمہاری آنکھوں کے سامنے غرق کردیا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ:اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا پھاڑ دیا۔ }یہ دوسری نعمت کا بیان ہے جو بنی اسرائیل پر فرمائی کہ انہیں فرعونیوں کے ظلم و ستم سے نجات دی اور فرعون کو اس کی قوم سمیت ان کے سامنے غرق کردیاجس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حکمِ الٰہی پررات کے وقت بنی اسرائیل کو لے کرمصر سے روانہ ہوئے۔ صبح کو فرعون ان کی جستجو میں ایک بھاری لشکر لے کر نکلا اور انہیں دریا کے کنارے پرپالیا، بنی اسرائیل نے فرعون کے لشکر کو دیکھ کر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فریاد کی، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریاپر اپنا عصا مارا۔اس کی برکت سے عین دریا میں بارہ خشک راستے پیدا ہوگئے اور پانی دیواروں کی طرح کھڑا ہوگیااور ان آبی دیواروں میں جالی کی مثل روشندان بن گئے۔ بنی اسرائیل کی ہر جماعت ان راستوں میں ایک دوسری کو دیکھتی اور باہم باتیں کرتی گزر گئی ۔ فرعون بھی اپنے لشکر سمیت ان دریائی راستوں میں داخل ہوگیالیکن جب اس کا تمام لشکر دریا کے اندر آگیا تو دریا اپنی اصلی حالت پر آیا اور تمام فرعونی اس میں غرق ہوگئے اوربنی اسرائیل دریاکے کنارے فرعونیوں کے غرق کا منظر دیکھ رہے تھے۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱ / ۳۱۸-۳۱۹، بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۵۱، ۱ / ۳۲۲، ملتقطاً)

انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ہونے والے انعام کی یادگار قائم کرنا سنت ہے:

             فرعونیوں کا غرق ہونا محرم کی دسویں تاریخ کو ہوا اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس دن شکر کا روزہ رکھا۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے،حضرت عبد اللہ  بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمافرماتے ہیں :جب حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں ، آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:یہ کیا ہے؟یہودیوں نے عرض کی :یہ نیک دن ہے،یہ وہ دن ہےجس میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تو حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس دن روزہ رکھا تھا۔ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا’’تمہاری نسبت موسیٰ سے میرا تعلق زیادہ ہے،چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس دن روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کاحکم ارشاد فرمایا۔(بخاری، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء،۱ / ۶۵۶، الحدیث: ۲۰۰۴، مسلم، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء، ص۵۷۲، الحدیث: ۱۲۸(۱۱۳۰))

            البتہ صرف دس محرم کا روزہ نہ رکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ آگے یا پیچھے ایک روزہ ملایا جائے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے مروی ہے رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: عاشوراء کے دن کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو، عاشوراء کے دن سے پہلے یا بعد میں ایک دن کا روزہ رکھو۔ (مسند امام احمد، ۱ / ۵۱۸، الحدیث: ۲۱۵۴)

                اس سے معلوم ہواکہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پرجوانعامِ الٰہی ہو اس کی یادگار قائم کرنا اور شکر بجا لاناسنت ہے اگرچہ کفار بھی اس یادگار کو قائم کرتے ہوں۔