banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 67 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًاؕ-قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ(67)قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ ؕ-قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِكْرٌؕ-عَوَانٌۢ بَیْنَ ذٰلِكَؕ-فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ(68)قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَاؕ-قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُۙ-فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ(69)قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَۙ-اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَیْنَاؕ-وَ اِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ(70)

ترجمہ: کنزالایمان اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو بولے کہ آپ ہمیں مسخرہ بناتے ہیں فرمایا خدا کی پناہ کہ میں جاہلوں سے ہوں۔ بولے اپنے رب سے دعاء کیجئے کہ وہ ہمیں بتادے گائے کیسی کہا وہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے نہ بوڑھی اور نہ اَوْسَربلکہ ان دونوں کے بیچ میں تو کرو جس کا تمہیں حکم ہوتا ہے۔ بولے اپنے رب سے دعاء کیجئے ہمیں بتادے اس کا رنگ کیا ہے کہا وہ فرماتا ہے وہ ایک پیلی گائے ہے جس کی رنگت ڈہڈہاتی دیکھنے والوں کو خوشی دیتی۔ بولے اپنے رب سے دعاکیجئے کہ ہمارے لئے صاف بیان کرے وہ گائے کیسی ہے بےشک گائیوں میں ہم کو شبہ پڑگیا اور اللہ چاہے تو ہم راہ پا جائیں گے۔ ترجمہ: کنزالعرفان اوریاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو تو انہوں نے کہا کہ کیا آپ ہمارے ساتھ مذاق کرتے ہیں ؟ موسیٰ نے فرمایا، ’’میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں بتادے کہ وہ گائے کیسی ہے؟ فرمایا: اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایک ایسی گائے ہے جو نہ توبوڑھی ہے اور نہ بالکل کم عمربلکہ ان دونوں کے درمیان درمیان ہو۔ تو وہ کرو جس کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا: آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں بتادے، اس گائے کا رنگ کیا ہے؟ فرمایاکہ اللہ فرماتا ہے کہ وہ پیلے رنگ کی گائے ہے جس کا رنگ بہت گہرا ہے۔ وہ گائے دیکھنے والوں کو خوشی دیتی ہے۔ انہوں نے کہا: آپ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہمارے لئے واضح طور پر بیان کردے کہ وہ گائے کیسی ہے؟ کیونکہ بیشک گائے ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے اور اگراللہ چاہے گا تو یقینا ہم راہ پالیں گے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى: اور جب موسیٰ نے فرمایا۔}ان آیات میں یہودیوں  کو جو واقعہ یاد دلایا جا رہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک مالدار شخص عامیل کو اس کے عزیز نے خفیہ طور پر قتل کر کے دوسرے محلہ میں ڈال دیا تا کہ اس کی میراث بھی لے اور خون بہا بھی اور پھر دعویٰ کر دیا کہ مجھے خون بہا دلوایا جائے۔ قاتل کا پتہ نہ چلتا تھا۔ وہاں کے لوگوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے درخواست کی کہ آپ دعا فرمائیں کہ اللہ  تعالیٰ حقیقت حال ظاہر فرمائے، اس پر حکم ہوا کہ ایک گائے ذبح کرکے اس کا کوئی حصہ مقتول کے ماریں ، وہ زندہ ہو کر قاتل کے بارے میں بتادے گا۔ لوگوں نے حیرانی سے کہا کہ کیا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہم سے مذاق کررہے ہیں کیونکہ مقتول کا حال معلوم ہونے اور گائے کے ذبح کرنے میں کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی۔ اس پر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جواب دیا، ’’میں اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں مذاق کر کے جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔  جب بنی اسرائیل نے سمجھ لیا کہ گائے کا ذبح کرنا مذاق نہیں بلکہ باقاعدہ حکم ہے تو انہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اس کے اوصاف دریافت کیے اور بار بار سوال کرکے وہ لوگ قیدیں بڑھاتے گئے اور بالآخر یہ حکم ہوا کہ ایسی گائے ذبح کرو جو نہ بوڑھی ہو اور نہ بہت کم عمر بلکہ درمیانی عمر کی ہو، بدن پر کوئی داغ نہ ہو، ایک ہی رنگ کی ہو، رنگ آنکھوں کو بھانے والا ہو، اس گائے نے کبھی کھیتی باڑی کی ہو نہ کبھی کھیتی کو پانی دیا ہو۔ آخری سوال میں انہوں نے کہا کہ اب ہم ان شآء اللہ راہ پالیں گے۔ بہر حال جب سب کچھ طے ہوگیا تو ان کی تسلی ہوگئی پھر انہوں نے گائے کی تلاش شروع کر دی۔

             ان کے اطراف میں ایسی صرف ایک گائے تھی، اس کا حال یہ تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک صالح شخص تھے ان کا ایک چھوٹا بچہ تھا اور ان کے پاس ایک گائے کے بچے کے علاوہ اور کچھ نہ رہا تھا، انہوں نے اس کی گردن پر مہر لگا کر اللہ تعالیٰ کے نام پر چھوڑ دیا اور بارگاہِ حق میں عرض کی: یارب! عَزَّوَجَلَّ میں اس بچھیا کو اس فرزند کے لیے تیرے پاس ودیعت رکھتا ہوں تاکہ جب یہ فرزند بڑا ہو تویہ اس کے کام آئے۔ اس نیک شخص کا تو انتقال ہوگیا لیکن وہ بچھیا جنگل میں اللہ تعالیٰ کی حفا ظت میں پرورش پاتی رہی، یہ لڑکا جب بڑا ہوا تو صالح ومتقی بنا اور ماں کا فرمانبردار تھا۔ ایک دن اس کی والدہ نے کہا: اے نورِ نظر! تیرے باپ نے تیرے لئے فلاں جنگل میں خدا کے نام ایک بچھیا چھوڑی تھی وہ اب جوان ہوگئی ہوگی، اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تجھے عطا فرمائے اورتو اسے جنگل سے لے آ۔ لڑکا جنگل میں گیا اور اس نے گائے کو جنگل میں دیکھا اوروالدہ کی بتائی ہوئی علامتیں اس میں پائیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کی قسم دے کر بلایا تووہ حاضر ہوگئی۔ وہ جوان اس گائے کو والدہ کی خدمت میں لایا۔ والدہ نے بازار میں لے جا کر تین دینار پر فروخت کرنےکا حکم دیا اور یہ شرط کی کہ سودا ہونے پر پھر اس کی اجازت حاصل کی جائے، اس زمانہ میں گائے کی قیمت ان اطراف میں تین دینار ہی تھی۔ جوان جب اس گائے کو بازار میں لایا تو ایک فرشتہ خریدار کی صورت میں آیا اور اس نے گائے کی قیمت چھ دینار لگادی مگر یہ شرط رکھی کہ جوان اپنی والدہ سے اجازت نہیں لے گا۔ جوان نے یہ منظور نہ کیا اور والدہ سے تمام قصہ کہا، اس کی والدہ نے چھ دینار قیمت منظور کرنے کی تو اجازت دی مگر بیچنے میں پھر دوبارہ اپنی مرضی دریافت کرنے کی شرط لگادی۔ جوان پھر بازار میں آیا، اس مرتبہ فرشتہ نے بارہ دینار قیمت لگائی اور کہا کہ والدہ کی اجازت پر موقوف نہ رکھو۔ جو ان نے نہ مانا اور والدہ کو اطلاع دی وہ صاحب فراست عورت سمجھ گئی کہ یہ خریدار نہیں کوئی فرشتہ ہے جو آزمائش کے لیے آتا ہے۔ بیٹے سے کہا کہ اب کی مرتبہ اس خریدار سے یہ کہنا کہ آپ ہمیں اس گائے کے فروخت کرنے کا حکم دیتے ہیں یا نہیں ؟ لڑکے نے یہی کہا توفرشتے نے جواب دیا کہ ابھی اس کو روکے رہو، جب بنی اسرائیل خریدنے آئیں تو اس کی قیمت یہ مقرر کرنا کہ اس کی کھال میں سونا بھر دیا جائے۔ جوان گائے کو گھر لایا اور جب بنی اسرائیل جستجو کرتے ہوئے اس کے مکان پر پہنچے تو یہی قیمت طے کی اور حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ضمانت پر وہ گائے بنی اسرائیل کے سپرد کی۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۶۷، ۱ / ۶۰-۶۱)

گائے ذبح کرنے والے واقعہ سے معلوم ہونے والے مسائل:

            اس واقعہ سے کئی چیزیں معلوم ہوئیں :

(1)… نبی کے فرمان پر بغیر ہچکچاہٹ عمل کرنا چاہیے اور عمل کرنے کی بجائے عقلی ڈھکوسلے بنانا بے ادبوں کا کام ہے۔

(2)… پیغمبر جھوٹ، دل لگی اورکسی کا مذاق اڑانا وغیرہ عیبوں سے پاک ہیں البتہ خوش طبعی ایک محمود صفت ہے یہ ان  میں پائی جا سکتی ہے۔

(3)… شرعی احکامات سے متعلق بے جا بحث مشقت کا سبب ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر بنی اسرائیل بحث نہ نکالتے تو جو گائے ذبح کردیتے وہی کافی ہوجاتی۔(در منثور، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۰، ۱ / ۱۸۹)

(4)…اِنْ شَآءَ اللہ  کہنے کی بہت برکت ہے۔ حضورپرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اگر بنی اسرائیل وَ اِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ نہ کہتے تو کبھی وہ گائے نہ پاتے۔  (کشف الخفاء، حرف الشین المعجمۃ، ۲ / ۷، رقم: ۱۵۲۸)

(5)… جو اپنے عیال کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرے اللہ تعالیٰ اس کی عمدہ پرورش فرماتا ہے۔

 (6)… جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر اس کی امانت میں دے اللہ تعالیٰ اس میں برکت دیتا ہے۔

(7)… والدین کی فرمانبرداری اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔

(8)… ماں باپ کی خدمت و اطاعت کرنے والوں کو دونوں جہانوں میں ملتا ہے۔