banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 75 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَكُمْ وَ قَدْ كَانَ فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَسْمَعُوْنَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَهٗ مِنْۢ بَعْدِ مَا عَقَلُوْهُ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(75)

ترجمہ: کنزالایمان تو اے مسلمانو کیا تمہیں یہ طمع ہے کہ یہ یہودی تمہارا یقین لائیں گے اور ان میں کا تو ایک گروہ وہ تھا کہ اللہ کا کلام سنتے پھر سمجھنے کے بعد اسے دانستہ بدل دیتے۔ ترجمہ: کنزالعرفان تو اے مسلمانو!کیا تم یہ امید رکھتے ہو کہ یہ تمہاری وجہ سے ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ وہ تھا کہ وہ اللہ کا کلام سنتے تھے اور پھراسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر بدل دیتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{اَفَتَطْمَعُوْنَ: کیا تمہیں یہ امید ہے۔}  انصار صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو اس بات کی بہت حرص تھی کہ یہودی اسلام قبول کر لیں کیونکہ وہ یہودیوں کے حلیف تھے اور ان کے پڑوسی بھی تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے مسلمانو! کیا تم یہ امید رکھتے ہو کہ یہ یہودی تمہارا یقین کریں گے یا تمہاری تبلیغ کی وجہ سے ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں ایک گروہ وہ تھا جوصرف علماء پر مشتمل تھا، وہ اللہ تعالیٰ کا کلام یعنی تورات سنتے تھے اور پھر اسے سمجھ لینے کے بعد جان بوجھ کر بدل دیتے تھے، اسی طرح ان یہودیوں نے بھی تورات میں تحریف کی اور رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نعت بدل ڈالی، توایسے لوگ کہاں ایمان لائیں گے؟ لہٰذا تم ان کے ایمان کی امید نہ رکھو۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۵، ۱ / ۳-۴، الجزء الثانی، بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۷۵، ۱ / ۳۴۷-۳۴۸، ملتقطاً)

عالم کابگڑنا زیادہ تباہ کن ہے:

          اس سے معلوم ہوا کہ عالم کا بگڑنا عوام کے بگڑنے سے زیادہ تباہ کن ہے کیونکہ عوام علماء کو اپنا ہادی اور رہنما سمجھتے ہیں ، وہ علماء کے اقوال پر عمل کرتے اور ان کے افعال کو دلیل بناتے ہیں اور جب علماء ہی کے عقائد و اعمال میں بگاڑ پیداہو جائے تو عوام راہ ہدایت پر کس طرح چل سکتی ہے، اور کئی جگہ پر شایدیہ عالم کہلانے والوں کی بد عملی کا نتیجہ ہے کہ آج لوگ دیندار طبقے سے متنفر ہو رہے ہیں اور ان کے خلاف اپنی زبان طعن دراز کر رہے ہیں۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ائمہ دین فرماتے ہیں :’’ اے گروہ علماء! اگرتم مستحبات چھوڑ کر مباحات کی طرف جھکو گے( تو) عوام مکروہات پرگریں گے، اگرتم مکروہ کروگے( تو) عوام حرام میں پڑیں گے، اگرتم حرام کے مرتکب ہوگے(تو) عوام کفر میں مبتلا ہوں گے۔ یہ ارشاد نقل کرنے کے بعد فرمایا ’’بھائیو!  لِلّٰہِ اپنے اوپررحم کرو، اپنے اوپررحم نہ کرو( تو) اُمت مصطفیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  پررحم کرو، چرواہے کہلاتے ہو بھیڑئیے نہ بنو۔(فتاوی رضویہ، ۲۴ / ۱۳۲-۱۳۳)