banner image

Home ur Surah Al Baqarah ayat 87 Translation Tafsir

اَلْبَقَرَة

Al Baqarah

HR Background

وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ٘-وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ-اَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْۚ-فَفَرِیْقًا كَذَّبْتُمْ٘-وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ(87)

ترجمہ: کنزالایمان اور بے شک ہم نے موسٰی کو کتاب عطا کی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں اور پاک روح سے اس کی مدد کی تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے ہوتو ان میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور بے شک ہم نے موسٰی کو کتاب عطا کی اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں اور پاک روح کے ذریعے ان کی مدد کی تو (اے بنی اسرائیل!) کیا (تمہارا یہ معمول نہیں ہے؟ کہ) جب کبھی تمہارے پاس کوئی رسول ایسے احکام لے کر تشریف لایا جنہیں تمہارے دل پسند نہیں کرتے تھے تو تم تکبر کرتے تھے پھر ان (انبیاء میں سے) ایک گروہ کو تم جھٹلاتے تھے اور ایک گروہ کو شہید کردیتے تھے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ: ہم نے موسٰی کو کتاب دی۔}یہاں سے بنی اسرائیل کو دی گئی مزید نعمتیں بیان کی جا رہی ہیں ، اس آیت میں کتاب سے توریت مراد ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے تمام عہد مذکور تھے ۔ان میں سب سے اہم عہد یہ تھے کہ ہر زمانہ کے پیغمبروں کی اطاعت کرنا، ان پر ایمان لانا اور ان کی تعظیم وتوقیر کرنا جیسا کہ سورہ مائدہ آیت 21میں مذکور ہے۔

{وَ قَفَّیْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ: اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے۔}حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ سے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تک متواتر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آتے رہے، ان کی تعداد چار ہزار بیان کی گئی ہے، یہ سب حضرات حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شریعت کے محافظ اور اس کے احکام جاری کرنے والے تھے اور چونکہ ہمارے آقا، خاتَمُ الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد نبوت کسی کو نہیں مل سکتی اس لیے شریعت ِمحمدیہ کی حفاظت و اشاعت کی خدمت علماء ربانی اور مجددین کو عطا ہوئی۔

{وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ: عیسیٰ بن مریم کو ہم نے نشانیاں دیں۔}ان نشانیوں سے مراد حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات ہیں جیسے مردوں کو زندہ کرنا، اندھوں اور برص والوں کوصحت دینا، پرندوں کی صورتوں میں جان ڈال دینا، غیب کی خبریں دینا وغیرہ جیسا کہ سورہ آلِ عمران آیت 49میں ہے۔

{ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ: اور پاک روح کے ذریعے ا س کی مدد کی۔}روح القدس سے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام مراد ہیں کہ وہ روحانی ہیں اور ایسی وحی لاتے ہیں جس سے دلوں کو حیات یعنی زندگی ملتی ہے۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ رہنے کا حکم تھا۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے آسمان پر اٹھائے جانے تک حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سفر وحضر میں کبھی آپ سے جدا نہ ہوئے اور حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام کی تائید حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ حضور سید المرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقہ میں آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعض امتیوں کو بھی روح القدس کی تائید میسر ہوئی چنانچہ بخاری ، ابوداؤد اور معجم کبیر کی حدیث ہے کہ حضرت حسان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے لیے منبر بچھایا جاتا اوروہ نعت شریف پڑھتے۔حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان کے لیے دعا فرماتے ’’اَللّٰھُمَّ اَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُس‘‘اے اللہ!  روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرما۔(بخاری، کتاب الصلاۃ، باب الشعر فی المسجد، ۱ / ۱۷۲، الحدیث: ۴۵۳، ابو داؤد، کتاب الادب، باب ماجاء فی الشعر، ۴ / ۳۹۴-۳۹۵، الحدیث: ۵۰۱۵، معجم الکبیر، ۴ / ۳۷، الحدیث: ۳۵۸۰، واللفظ للمعجم)

  غیر خدا کا مدد کرنا شرک نہیں :

اس تفسیر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیرِ خدا کی مدد شرک نہیں ، اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مدد حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کے ذریعہ فرمائی اور جب حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام مدد کر سکتے ہیں تو حضور پرنور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی طاقت و قدرت سے یقینا مدد فرما سکتے ہیں ، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں مدد فرمانے کا تو کثیر احادیث میں ذکر ہے، البتہ ہم یہاں 2 ایسے واقعات ذکر کرتے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے وصالِ ظاہری کے بعد اپنی بارگاہ میں حاضر ہو کر فریاد کرنے والوں کی مدد فرمائی۔

(1)… مشہور محدثین امام ابو بکر بن مقری، ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی اور امام ابو شیخ  رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ نے مزار پر انوار پر حاضر ہو کر بھوک کی فریاد کی تو رسول کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ایک عَلوی کے ذریعے انہیں کھانا بھجوایا اور اس علوی نے کہا:آپ لوگوں نے بارگاہ رسالت میں فریاد کی تھی تو مجھے خواب میں حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوئی اورحضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں آپ لوگوں تک کھانا پہنچا دوں۔(وفاء الوفاء، الباب الثامن فی زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، الفصل الثالث، ۲ / ۱۳۸۰، الجزء الرابع)

(2)…ابو قاسم ثابت بن احمد بغدادی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں نے تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شہر اقدس مدینہ منورہ میں ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے روضہ انور کے قریب صبح کی اذان دی اور جب اس نے ’’اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمْ‘‘ کہا تو یہ سن کر مسجد نبوی کے خادموں میں سے ایک خادم آیا اور اِس نے اُسے تھپڑ مار دیا۔ وہ شخص رونے لگا اور اس نے فریاد کی: یارسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کی موجودگی میں ا س شخص نے میرے ساتھ ایسا کیا ہے۔ (اس کی فریاد جیسے ہی ختم ہوئی ) تو اس خادم پر فالج گرا اور لوگ اسے اٹھا کر اس کے گھر لے گئے، تین دن بعد وہ خادم مر گیا۔(ابن عساکر، حرف الثاء، ذکر من اسمہ ثابت، ۱۱ / ۱۰۴)

            یاد رہے کہ علامہ نور الدین علی بن احمد سمہودی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی مشہور کتاب ’’وَفَاء الْوَفَاء بِاَخْبَارِ دَارِ الْمُصْطَفٰی‘‘ کے چوتھے حصے میں صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا ور اولیاء عظام رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کے ایسے کئی واقعات  بیان فرمائے ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ انہوں نے سید المُرسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے روضہ انور پر حاضر ہو کر اپنی حاجت بیان کی اور رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی مدد کرتے ہوئے ان کی حاجت پوری فرما دی اور امام محمد بن موسیٰ بن نعمان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تو اس موضوع پر ’’مِصْبَاحُ الظَّلَامْ فِی الْمُسْتَغِیْثِیْنَ بِخَیْرِ الْاَنَامْ‘‘ کے نام سے باقاعدہ ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

{لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمْ:  تمہارے دل پسند نہیں کرتے۔}یہودی لوگ، پیغمبروں کے احکام اپنی خواہشوں کے خلاف پا کر انہیں جھٹلاتے اور موقع پاتے توان انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کر ڈالتے تھے جیسا کہ انہوں نے حضرت زکریا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اوران کے علاوہ بہت سے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کیا، حتّٰی کہ ہمارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بھی دَرپے رہے، کبھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر جادو  کیا، کبھی زہر دیا اور ان کے علاوہ آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو شہید کرنے کیلئے طرح طرح کے فریب کرتے رہے۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہواکہ احکامِ الہٰی پر اپنی خواہشات کو ترجیح دینا یہودیوں  جبکہ حکمِ الہٰی کے سامنے اپنے نفس کو کچل دینا کامل الایمان لوگوں کی نشانی ہے۔