Home ≫ ur ≫ Surah Al Buruj ≫ ayat 18 ≫ Translation ≫ Tafsir
هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْجُنُوْدِ(17)فِرْعَوْنَ وَ ثَمُوْدَﭤ(18)
تفسیر: صراط الجنان
{هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْجُنُوْدِ: کیا تمہارے پاس لشکروں کی بات آئی۔} اس سے پہلی آیات میں کفار کی طرف سے اہل ایمان کو اَذِیَّتیں پہنچنے کے حوالے سے اصحابُ الاُخْدود کا حال بیان کر کے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اور ان کے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو تسلی دی گئی اور اب یہاں سے اصحابُ الاُخْدود سے بھی پہلے کے کفار کا حال بیان کر کے تسلی دی جا رہی ہے چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک آپ کے پاس فرعون اورا س کی قوم اور ثمود کے ان لشکروں کی خبر آئی ہے جنہیں کافر لوگ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مقابلے میں لائے تھے اور آپ کو ان کے انجام کے بارے میں معلوم بھی ہے کہ وہ لشکر اپنے کفر کے سبب ہلاک کر دئیے گئے ،لہٰذا آپ اپنی قوم کو اللّٰہ تعالیٰ کی سخت پکڑ کے بارے میں بتائیں اور انہیں سابقہ کفار کے حالات اور ان کا انجام سنا کر ڈرائیں کہ اگر تم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو تمہارا انجام بھی انہی جیسا ہوگا۔( تفسیرکبیر ، البروج ، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸ ، ۱۱ / ۱۱۵ ، ابو سعود، البروج، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ۵ / ۸۵۶، جلالین، البروج، تحت الآیۃ: ۱۷-۱۸، ص۴۹۶، ملتقطاً)
آیت ’’هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْجُنُوْدِ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ،
(1) …عبرت حاصل کرنے کے لئے کفار کے عذاب سے متعلق سچی تاریخی خبریں معلوم کرنا جائز بلکہ ثواب کا کام ہے۔
(2)… جب عبرت حاصل کرنے کے لئے کفار کے عذاب کی سچی خبریں معلوم کرنا ثواب کا کام ہے تو انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اللّٰہ تعالیٰ کے اولیاء کی سیرت و حالات سے متعلق سچی تاریخی خبریں پڑھنا اورپڑھانا، سننا اورسنانا تاکہ ان کی پیروی اور اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا شوق پیدا ہو،یہ بھی ثواب کا کام ہے اوربزرگانِ دین کا عرس منانے اور گیارہویں شریف کی محافل سجانے سے اصل مقصود یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کو جمع کر کے ان بزرگوں کے سچے حالات ِزندگی سنائے جائیں تاکہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کا نتیجہ دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ جس نے اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت میں زندگی گزاری اور دنیا میں رہ کر اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کو راضی کر لیا تو دنیا سے چلے جانے کے بعد اسے کتنی عزت ملی اور اللّٰہ تعالیٰ نے ا س کی شان کو کتنا بلند کیا اور یوں ان میں اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کرنے کا ذوق و شوق پیدا ہو،گناہوں سے توبہ کرنے اور اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے کی رغبت پیدا ہو اور لوگ اپنے ظاہر کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے باطن کی اصلاح کرنے کی طرف بھی مائل ہوں البتہ یہ بات خاص طور پر یاد رہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے اولیاء کا عرس منانا جائز ہے اور منانا بھی چاہئے کہ اس سے لوگوں کو اپنی اصلاح کرنے کا موقع ملتا ہے لیکن ان کا عرس منانے میں کوئی ایسا کام کرنے کی ہر گز اجازت نہیں ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہو ،مثلاً عرس کے موقع پر ڈھول بجانا،گانے بجانے کے آلات کے ساتھ قوالی کرنا،آتش بازی کرنا،عورتوں کا ڈانس کرنا اور دیگر وہ تمام چیزیں جنہیں کرنے سے شریعت نے منع کیا ہے، لہٰذا بزرگانِ دین کا عرس اس طرح منائیں کہ اس میں کوئی بھی غیر شرعی کام نہ ہو تاکہ ا س کی برکات حاصل ہوں ۔ ہمارے زمانے میں شریعت کے دائرے میں رہ کر جو فاتحہ ، سوم ، چہلم ، برسی اور عرس وغیرہ کئے جاتے ہیں ، ان کی شرعی حیثیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ، جلد نمبر 9 سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کا رسالہ ’’اَلْحُجَّۃُ الْفَائِحَہْ لِطِیْبِ التَّعْیِیْنِ وَ الْفَاتِحَہْ‘‘ (دن مُتَعَیَّن کرنے اور مُرَوَّجہ فاتحہ،سوئم وغیرہ کا ثبوت) مطالعہ فرمائیں ۔