Home ≫ ur ≫ Surah Al Fath ≫ ayat 1 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا(1)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا: بیشک ہم نے تمہارے لیے روشن فتح کافیصلہ فرمادیا۔} اس آیت میں صرف نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خطاب فرمایا گیا ہے اور ا س کا معنی یہ ہے کہ اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، بے شک ہم نے آپ کے لئے ایسی فتح کا فیصلہ فرما دیاہے جو انتہائی عظیم ،روشن اور ظاہر ہے۔
شانِ نزول:حضرت اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جب ’’اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا‘‘ سے لے کر ’’فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘ تک آیات نازل ہوئیں ا س وقت حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حدیبیہ سے واپس لوٹ رہے تھے اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو بہت حزن وملال تھا اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حدیبیہ میں اونٹ نحر فرما دیا تھا، (جب یہ آیات نازل ہوئیں ) تو ارشاد فرمایا: ’’مجھ پرایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہے۔( مسلم، کتاب الجہاد والسّیر، باب صلح الحدیبیۃ فی الحدیبیۃ، ص۹۸۷، الحدیث: ۹۷(۱۷۸۶))
ترمذی شریف کی روایت میں ہے،حضرت اَنَس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حدیبیہ سے واپسی پرنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پریہ آیت نازل ہوئی ’’لِیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ‘‘ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا: ’’ آج مجھ پرایسی آیت نازل ہوئی ہے جومجھے روئے زمین پر موجود تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے ،پھرنبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے سامنے اس آیت کی تلاوت فرمائی توانہوں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کومبارک ہو،بیشک اللہ تعالیٰ نے بیان فرمادیاکہ آپ کے ساتھ کیامعاملہ کیاجائے گالیکن (ابھی تک یہ بیان نہیں فرمایا گیاکہ) ہمارے ساتھ کیاکیاجائے گا؟ پھرحضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر یہ آیت نازل ہوئی:’’لِیُدْخِلَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ یُكَفِّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْؕ-وَ كَانَ ذٰلِكَ عِنْدَ اللّٰهِ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘(فتح:۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: تاکہ وہ ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو ان باغوں میں داخل فرمادے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ہمیشہ ان میں رہیں گے اورتاکہ اللہ ان کی برائیاں ان سے مٹادے، اور یہ اللہ کے یہاں بڑی کامیابی ہے۔( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الفتح، ۵ / ۱۷۶، الحدیث: ۳۲۷۴)
صلح حدیبیہ کا مختصر واقعہ:
اس آیت میں جس فتح کی بشارت دی گئی اس سے کون سی فتح مراد ہے ،اس کے بارے میں مفسّرین کے مختلف اقوال ہیں ،اکثر مفسّرین کے نزدیک اس سے صلحِ حدیبیہ کی فتح مراد ہے ۔حدیبیہ مکہ ٔمکرمہ کے نزدیک ایک کنواں ہے اور اس سارے واقعہ کا مختصرخلاصہ یہ ہے کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خواب دیکھا کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ہمراہ امن کے ساتھ مکہ ٔمکرمہ میں داخل ہوئے،ان میں سے کوئی حلق کئے ہوئے اور کوئی قصر کئے ہوئے تھا ،نیز آپ کعبۂ معظمہ میں داخل ہوئے، کعبہ کی چابی لی، طواف فرمایا اورعمرہ کیا۔نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کو اس خواب کی خبر دی تو سب خوش ہوئے۔ پھر حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عمرہ کا قصد فرمایا اور1400 صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ ذی القعدہ کی پہلی تاریخ،سن 6 ہجری کو روانہ ہوگئے اور ذوالحُلَیْفَہ میں پہنچ کر وہاں مسجد میں دو رکعتیں پڑھیں ، عمرہ کا احرام باندھا اور حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ اکثرصحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے بھی احرام باندھا۔ بعض صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے جُحْفَہ سے احرام باندھا ۔راستے میں پانی ختم ہوگیا تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: لشکر میں پانی بالکل باقی نہیں ہے،صرف حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے برتن میں تھوڑا ساپانی بچا ہے۔ حضورِاکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے برتن میں دستِ مبارک ڈالا تو مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے جوش مارنے لگے، پھر سارے لشکر نے پانی پیا اوروضوکیا۔جب مقامِ عُسفان میں پہنچے تو خبر آئی کہ کفارِ قریش بڑے سازو سامان کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہیں ۔ جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو پھر پانی ختم ہوگیا حتی کہ لشکر والوں کے پاس ایک قطرہ نہ رہا، اوپر سے گرمی بھی بہت شدید تھی۔رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کنوئیں میں کلی فرمائی تو اس کی برکت سے کنواں پانی سے بھر گیا ،پھر سب نے وہ پانی پیا اور اونٹوں کو پلایا۔
یہاں کفارِ قریش کی طرف سے حال معلوم کرنے کے لئے کئی شخص بھیجے گئے اور سب نے جا کر یہی بیان کیا کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عمرہ کے لئے تشریف لائے ہیں ،جنگ کا ارادہ نہیں ہے۔ لیکن انہیں یقین نہ آیا توآخر کار انہوں نے عُرْوَہْ بن مسعود ثَقَفِی کو حقیقت حال جاننے کے لئے بھیجا،یہ طائف کے بڑے سردار اور عرب کے انتہائی مالدار شخص تھے ، اُنہوں نے آکر دیکھا کہ حضورِ انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دستِ مبارک دھوتے ہیں تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ تَبَرُّک کے طور پر غُسالَہ شریف حاصل کرنے کے لئے ٹوٹ پڑتے ہیں ۔اگر کبھی لعابِ دہن ڈالتے ہیں تو لوگ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جس کو وہ حاصل ہوجاتا ہے وہ اپنے چہرے اور بدن پر برکت کے لئے مل لیتا ہے، جسمِ اقدس کا کوئی بال گرنے نہیں پاتا اگر کبھی جدا ہوا تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اس کو بہت ادب کے ساتھ لیتے اور جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں ،جب حضور پر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کلام فرماتے ہیں تو سب خاموش ہوجاتے ہیں ۔ حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ادب و تعظیم کی وجہ سے کوئی شخص اوپر کی طرف نظر نہیں اُٹھا سکتا۔ عُروَہ نے قریش سے جا کر یہ سب حال بیان کیا اور کہا: میں فارس ، روم اور مصر کے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں ، میں نے کسی بادشاہ کی یہ عظمت نہیں دیکھی جو محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُن کے اصحاب میں ہے ،مجھے اندیشہ ہے کہ تم ان کے مقابلے میں کامیاب نہ ہوسکو گے۔ قریش نے کہا ایسی بات مت کہو، ہم اس سال انہیں واپس کردیں گے وہ اگلے سال آئیں ۔ عُروَہ نے کہا: مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں کوئی مصیبت پہنچے گی۔ یہ کہہ کر وہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ طائف واپس چلے گئے اور اس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں مشرف بہ اسلام کیا۔ اسی مقام پر حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اصحاب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بیعت لی، اسے ’’بیعتِ رضوان‘‘ کہتے ہیں ۔ بیعت کی خبر سے کفار خوف زدہ ہوئے اور ان کے رائے دینے والوں نے یہی مناسب سمجھا کہ صلح کرلیں ، چنانچہ صلح نامہ لکھا گیا اور آئندہ سال حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا تشریف لانا قرار پایا اور یہ صلح مسلمانوں کے حق میں بہت نفع مند ہوئی بلکہ نتائج کے اعتبار سے فتح ثابت ہوئی، اسی لئے اکثر مفسّرین فتح سے صلحِ حدیبیہ مراد لیتے ہیں اور بعض مفسّرین وہ تمام اسلامی فتوحات مراد لیتے ہیں جو آئندہ ہونے والی تھیں جیسے مکہ، خیبر، حنین اور طائف وغیرہ کی فتوحات۔اس صورت میں یہاں فتح کوماضی کے صیغہ سے اس لئے بیان کیاگیا کہ ان فتوحات کا وقوع یقینی تھا۔( خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۱۴۴، روح البیان، الفتح، تحت الآیۃ: ۱، ۹ / ۳-۷ جلالین مع صاوی، الفتح، تحت الآیۃ: ۱، ۵ / ۱۹۶۵-۱۹۶۶، ملتقطاً)