banner image

Home ur Surah Al Fath ayat 13 Translation Tafsir

اَلْفَتْح

Al Fath

HR Background

سَیَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَاۤ اَمْوَالُنَا وَ اَهْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَاۚ-یَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِهِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِهِمْؕ-قُلْ فَمَنْ یَّمْلِكُ لَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـا اِنْ اَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ نَفْعًاؕ-بَلْ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(11)بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ اِلٰۤى اَهْلِیْهِمْ اَبَدًا وَّ زُیِّنَ ذٰلِكَ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ ظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ ۚۖ-وَ كُنْتُمْ قَوْمًۢا بُوْرًا(12)وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(13)

ترجمہ: کنزالایمان اب تم سے کہیں گے جو گنوار پیچھے رہ گئے تھے کہ ہمیں ہمارے مال اور ہمارے گھر والوں نے جانے سے مشغول رکھا اب حضور ہماری مغفرت چاہیں اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو اُن کے دلوں میں نہیں تم فرماؤ تو اللہ کے سامنے کسے تمہارا کچھ اختیار ہے اگر وہ تمہارا بُرا چاہے یا تمہاری بھلائی کا ارادہ فرمائے بلکہ اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ بلکہ تم تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ رسول اور مسلمان ہرگز گھروں کو واپس نہ آئیں گے اور اسی کو اپنے دلوں میں بھلا سمجھے ہوئے تھے اور تم نے بُرا گمان کیا اور تم ہلاک ہونے والے لوگ تھے۔ اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بیشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ ترجمہ: کنزالعرفان پیچھے رہ جانے والے دیہاتی اب تم سے کہیں گے کہ ہمیں ہمارے مال اور ہمارے گھر والوں نے مشغول رکھاتو اب آپ ہمارے لئے مغفرت کی دعا کردیں ، وہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ تم فرماؤ اگر اللہ تمہیں نقصان پہنچاناچاہے یا وہ تمہاری بھلائی کا ارادہ فرمائے تو اللہ کے مقابلے میں کون تمہارے لئے کسی چیز کا اختیار رکھتا ہے؟ بلکہ اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔ بلکہ تم تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ رسول اور مسلمان ہرگز کبھی اپنے گھر والوں کی طرف واپس نہ آئیں گے اور یہ بات تمہارے دلوں میں بڑی خوبصورت بنادی گئی تھی اور تم نے (یہ) بہت برا گمان کیاتھا اور تم ہلاک ہونے والے لوگ تھے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول پرایمان نہ لائے تو بیشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{سَیَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ: پیچھے رہ جانے والے دیہاتی اب تم سے کہیں  گے۔} جب رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حُدَیْبِیَہ کے سال عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ فرمایا تو مدینہ منورہ سے قریبی گاؤں  والے اور دیہاتی جن کا تعلق غِفار،مزینہ،جہینہ،اشجع اور اسلم قبیلے سے تھا، کفارِ قریش کے خوف سے آپ کے ساتھ نہ گئے حالانکہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عمرہ کا احرام باندھا تھا اور قربانی کے جانور بھی ساتھ تھے جس سے صاف ظاہر تھا کہ جنگ کا ارادہ نہیں  ہے، پھر بھی بہت سے دیہاتیوں  پر جانا بھاری ہوا اور وہ کام کا بہانہ بنا کر وہیں  رہ گئے اور حقیقت میں  ان کا گمان یہ تھا کہ قریش بہت طاقتور ہیں  ،ا س لئے مسلمان ان سے بچ کر نہ آئیں  گے بلکہ سب وہیں  ہلاک ہوجائیں  گے۔ اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں  ان دیہاتیوں  کے بارے میں  خبر دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ کی مدد سے معاملہ ان دیہاتیوں  کے خیال کے بالکل خلاف ہوا ہے(اور جب ا س کی خبر پہنچے گی تو) انہیں  آپ کے ساتھ نہ جانے پر افسوس ہو گااورجب آپ واپس جائیں  گے اور پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں  پر عتاب فرمائیں  گے تو وہ معذرت کرتے ہوئے آپ سے کہیں  گے: ہمیں  ہمارے مال اور ہمارے گھر والوں  نے مشغول رکھا کیونکہ عورتیں  اور بچے اکیلے تھے اور کوئی ان کی خبر گیری کرنے والا نہ تھا ، اس لئے ہم آپ کے ساتھ جانے سے قاصر رہے، تو اب آپ ہمارے لئے مغفرت کی دعا کردیں  تاکہ اللہ  تعالیٰ ہمارے اس قصور کو معاف کر دے جو ہم نے آپ کے ساتھ نہ جا کر کیا۔اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، یہ لوگ عذر پیش کرنے اور مغفرت طلب کرنے میں  جھوٹے ہیں  کیونکہ وہ اپنی زبانوں  سے ایسی بات کہتے ہیں  جو ان کے دلوں  میں  نہیں  ہے اور انہیں  اس بات کی کوئی پرواہ نہیں  کہ آپ ان کے لئے مغفرت طلب کرتے ہیں  یا نہیں  (اور جب یہ لوگ آپ کے سامنے عذر پیش کریں  تو) ان سے فرما دیں :اگر اللہ تعالیٰ تمہیں  نقصان پہنچاناچاہے یا وہ تمہاری بھلائی کا ارادہ فرمائے تو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں  کون تمہارے لئے کسی چیز کا اختیار رکھتا ہے؟ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر تمہارے مال و اولاد پر آفت آنے والی ہوتی تو تم یہاں  رہ کر وہ آفت دور نہ کردیتے اور اگر نہ آنے والی ہوتی تو تمہارے جانے سے وہ ہلاک نہ ہوجاتے، پھر تم کیوں  ایسی نعمت ِعُظْمیٰ یعنی بیعت ِرضوان سے محروم رہے (اور تم یہ نہ سمجھنا کہ مجھے تمہارے ا س جھوٹ کی خبر نہیں ) بلکہ یاد رکھو: اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں  سے خبردار ہے ( اور ا س نے وحی کے ذریعے مجھے یہ بتا دیا ہے کہ تمہاری غیر حاضری کی وجہ وہ نہیں  جو تم بیان کر رہے ہو) بلکہ اے منافقو! اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ تم تو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور مسلمان ہرگز کبھی اپنے گھر والوں  کی طرف واپس نہ آئیں  گے اوردشمن ان سب کا وہیں  خاتمہ کردیں  گے اور شیطان کی طرف سے یہ بات تمہارے دلوں  میں  بڑی خوبصورت بنادی گئی تھی یہاں  تک کہ تم نے اس پر یقین کر لیا اور یہ گمان کر لیا کہ کفر غالب آئے گا،اسلام مغلوب ہو جائے گا او راللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا نہ ہوگا اور اس گمان کی وجہ سے تم ہلاک ہونے والے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق لوگ تھے۔( مدارک،الفتح،تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ص۱۱۴۲-۱۱۴۳، بغوی، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ۴ / ۱۷۳، خازن، الفتح، تحت الآیۃ: ۱۱-۱۲، ۴ / ۱۴۷-۱۴۸، ملتقطاً)

             آیت نمبر12 سے معلوم ہوا کہ اس سفر میں  حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ جانے والے 1400 حضرات سب کامل مومن ہیں  کہ اللہ  تعالیٰ نے انہیں  ’’مومنون‘‘ فرمایا ہے، اب جو بد بخت ان میں  سے کسی کے ایمان میں  شک کرے وہ اس آیت کا منکر ہے۔

{وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ: اور جو اللہ اور اس کے رسول پرایمان نہ لائے۔} اس آیت میں  یہ بتایا گیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان نہ لائے اور ان میں  سے کسی ایک کا بھی منکر ہو، وہ کافر ہے اوراپنے کفر کی وجہ سے اس بھڑکتی آگ کا مستحق ہے جو اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے تیار کر رکھی ہے۔