banner image

Home ur Surah Al Furqan ayat 74 Translation Tafsir

اَلْفُرْقَان

Al Furqan

HR Background

وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(74)

ترجمہ: کنزالایمان اور وہ جو عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دے ہماری بیبیوں اورہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور وہ جو عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمااور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ: اور وہ جو عرض کرتے ہیں ۔} یعنی کامل ایمان والے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں  یوں  عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب!ہماری بیویوں  اور ہماری اولاد سے ہمیں  آنکھوں  کی ٹھنڈک عطا فرما۔اس سے مراد یہ ہے کہ ہمیں  بیویاں  اور اولاد نیک، صالح، متقی عطا فرما تاکہ ان کے اچھے عمل اور ان کی اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت دیکھ کر ہماری آنکھیں  ٹھنڈی اور دل خوش ہوں ۔(مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۴، ص۸۱۲)

 مومن کی آنکھوں  کی ٹھنڈک:

            اس سے معلوم ہوا کہ نیک اور پرہیز گار بیوی اوراولاد مومن کی آنکھوں  کی ٹھنڈک اور اس کے دل کی خوشی کا باعث ہے۔نیک بیوی کے بارے میں  حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دنیا مَتاع (یعنی فائدہ اٹھانے کی چیز) ہے اور دنیا کی بہترمتاع نیک عورت ہے۔(مسلم، کتاب الرضاع، باب خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ، ص۷۷۴، الحدیث: ۵۹(۱۴۶۷))

            اور حضرت ابو امامہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالٰی سے ڈرنے کے بعد مومن کے لیے نیک بیو ی سے بہتر کوئی چیز نہیں ۔ اگر اسے حکم دیتا ہے تو وہ اطاعت کرتی ہے اور اگر اسے دیکھے تو خوش کر دے اور اس پر قسم کھا بیٹھے تو قسم سچی کر دے اور کہیں  چلا جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں  بھلائی کرے (یعنی اس کی عزت میں  خیانت نہ کرے اور اس کا مال ضائع نہ کرے۔)(ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب افضل النساء، ۲ / ۴۱۴، الحدیث: ۱۸۵۷)

            اور نیک اولاد کے بارے میں  حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب انسان مر جاتا ہے تو تین اعمال کے علاوہ اس کے عمل مُنقَطع ہو جاتے ہیں ۔(1)صدقہ جاریہ۔(2)وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا ہو۔(3)نیک بچہ جو اس کے لئے دعا کرے۔(مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، ص۸۸۶، الحدیث: ۱۴(۱۶۳۱))

{وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا: اور ہمیں  پرہیزگاروں  کا پیشوا بنا۔} یعنی ہمیں  ایسا پرہیزگار،عبادت گزار اور خدا پرست بنا کہ ہم پرہیزگاروں  کی پیشوائی کے قابل ہوں  اور وہ دینی اُمور میں  ہماری اِقتدا کریں ۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں  دلیل ہے کہ آدمی کو دینی پیشوائی اور سرداری کی رغبت رکھنی اور طلب کرنی چاہئے۔(خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: ۷۴، ۳ / ۳۸۱)      لیکن یہ اس صورت میں  ہے کہ جب مقصد اچھا ہو نہ یہ کہ حب ِ دنیا اور حب ِ جاہ کی وجہ سے ہو۔