banner image

Home ur Surah Al Hadid ayat 3 Translation Tafsir

اَلْحَدِيْد

Hadid

HR Background

هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(3)

ترجمہ: کنزالایمان وہی اوّل وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن اور وہی سب کچھ جانتا ہے ۔ ترجمہ: کنزالعرفان وہی اول اور آخر اور ظاہر اورباطن ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{هُوَ الْاَوَّلُ: وہی اول۔}اس آیت میںاللہ تعالیٰ کی پانچ صفات بیان ہوئی ہیں ۔

پہلی صفت:وہی اول ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے ہر چیز سے پہلے ہے کہ وہ ا س وقت بھی تھا جب کسی چیز کا وجود نہ تھا،اس کے لئے کوئی ابتداء نہیں  ۔

دوسری صفت:وہی آخر ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ  تعالیٰ ہر چیز کے ہلاک اور فنا ہونے کے بعد رہنے والا ہے کہ سب فنا ہوجائیں  گے اور وہ ہمیشہ رہے گا، اس کے لئے کوئی انتہا نہیں ۔

تیسری صفت:وہی ظاہر ہے۔ا س سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دلائل وبراہین سے ایسا ظاہر ہے کہ ذرے ذرے میں  اس کے وجود پر دلالت کرنے والے دلائل موجود ہیں  ۔ اللہ تعالیٰ کے ظاہر ہونے کے معنی یہ ہیں  کہ وہ ہر چیز پر غالب ہے۔

چوتھی صفت:وہی باطن ہے۔ ا س سے مراد یہ ہے کہ حواس اللہ تعالیٰ کا اِدراک کرنے سے عاجز ہیں  اور اس کی ذات ایسی پوشیدہ ہے کہ عقل کی اس تک رسائی نہیں  اور یہ پوشیدگی دنیا اور آخرت دونوں  میں ہے۔

پانچویں  صفت:وہی ہمیشہ سے ہمیشہ تک ہر شے کو ہر طرح سے جانتا ہے۔( روح البیان، الحدید، تحت الآیۃ: ۳، ۹ / ۳۴۶، خازن، الحدید، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۲۲۶،جلالین، الحدید، تحت الآیۃ: ۳، ص۴۴۸-۴۴۹، ملتقطاً)

نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی اول ،آخر ،ظاہر اور باطن ہیں :

حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے سیرت کے موضوع پر اپنی مشہور کتاب ’’مدارجُ النُّبوہ‘‘ کے خطبے میں  ذکر کیا ہے کہ یہ پانچوں  صفات حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بھی ہیں ۔ان کا ذکر کردہ کلام بعض مقامات پر کچھ تبدیلی کے ساتھ پیش ِخدمت ہے۔

سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اوّل بھی ہیں ، آخر بھی ہیں ، ظاہر بھی ہیں ، باطن بھی ہیں  اور سب کچھ جانتے بھی ہیں ۔چنانچہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَوّلِیَّت اس بنا پر ہے کہ موجودات کی تخلیق میں  سب سے اول ہیں (جیساکہ )حضرت جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے جابر!  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ،’’اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہ نُوْرِیْ‘‘ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کو وجود بخشا۔

آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مرتبۂ نبوت میں  بھی سب سے اول ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن شقیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  ،ایک شخص نے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا کہ آپ کب سے نبی ہیں ؟ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روح اور جسم کے درمیان تھے۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب المغازی، ماجاء فی مبعث النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۸ / ۴۳۸، الحدیث: ۱)

          میثاق کے دن سب جہاں  والوں  سے پہلے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے جواب دیا۔

          قیامت کے دن جب زمین شَق ہو گی تو سب سے پہلے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کیلئے زمین شَق ہوگی۔

          شفاعت کا دروازہ سب سے پہلے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے کھلے گا۔

          جنت میں  سب سے پہلے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ داخل ہوں  گے۔

اس اَوّلِیَّت کے باوجود بِعثَت و رسالت میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب سے آخر ہیں  ۔کتابوں  میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر نازل ہونے والی کتاب قرآنِ کریم اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دین سب سے آخری ہے۔

آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ظاہر سے مراد یہ ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے اَنوار نے پورے آفاق کو گھیر رکھا ہے جس سے سارا جہان روشن ہے ،مخلوق میں  سے کسی کا ظہور آپ کے ظہور کی مانند اور کسی کا نور آپ کے نور کے ہم پلہ نہیں  اور باطن سے مراد آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وہ اَسرار ہیں  جن کی حقیقت کا اِدراک مخلوق کے لئے ناممکن ہے اور دور ونزدیک کے لوگ آپ کے جمال اور کمال میں  کھو کر رہ گئے۔

اور آخر میں  فرماتے ہیں  کہ ’’وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ‘‘  کا ارشاد بلا شبہ حضورِ اکرم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے (بھی) ہے کیونکہ ’’وَ فَوْقَ كُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ‘‘ (یعنی اور ہر علم والے سے اوپر علم والا ہے) کی صفات آپ ہی میں  موجود ہیں ۔( مدارج النبوہ، ۱ / ۲، ملتقطاً)

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :

نمازِ اقصیٰ میں  تھا یہی سِّرعیاں  ہوں  معنِیٔ اوّل آخر

کہ دست بستہ ہیں  پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے