banner image

Home ur Surah Al Hajj ayat 32 Translation Tafsir

اَلْحَجّ

Al Hajj

HR Background

ذٰلِكَۗ-وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ(32)

ترجمہ: کنزالایمان بات یہ ہے اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے ۔ ترجمہ: کنزالعرفان بات یونہی ہے اور جو اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے ۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ:اور جو  اللہ کی نشانیوں  کی تعظیم کرے۔} یہاں   اللہ تعالیٰ کی نشانیوں  سے کیا مراد ہے ، اس کے بارے میں  مفسرین کے تین قول ہیں ، (1)  اللہ تعالیٰ کی نشانیوں  میں  تمام عبادات داخل ہیں ۔ (2) ان سے حج کے مَناسِک مراد ہیں  ۔ (3) ان سے بُدنہ یعنی وہ اونٹ اور گائے مراد ہیں  جنہیں  قربانی کے لئے حرم میں  بھیجا جائے اور ان کی تعظیم یہ ہے کہ فربہ ، خوبصورت اور قیمتی لئے جائیں ۔( تفسیرکبیر، الحج، تحت الآیۃ: ۳۲، ۸ / ۲۲۳، جلالین، الحج، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۲۸۲، ملتقطاً)

حج کے موقع پر کیسے جانور کی قربانی دی جائے؟

            اس آیت سے معلوم ہوا کہ حج کے موقع پر جو جانور قربان کیا جائے وہ عمدہ ، موٹا، خوبصورت اور قیمتی ہو۔ امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں ’’ ایک قول یہ ہے کہ ا س آیت میں  تعظیم سے مراد عمدہ اور موٹے جانور کی قربانی دینا ہے ۔ (لہٰذا قربانی کا جانور خریدنے والے کو چاہئے کہ )اس کی خریداری میں  قیمت کم کرنے کے در پے نہ ہو ۔ بزرگانِ دین تین چیزوں  میں  قیمت زیادہ دیتے تھے اور اس میں  کمی کروانے کو پسند نہیں  کرتے تھے (1)حج کے موقع پر خریدا جانے والا قربانی کا جانور۔ (2) عید کی قربانی کا جانور۔ (3) غلام۔ کیونکہ قربانی میں  زیادہ قیمت والا جانور ان کے مالکوں  کے نزدیک زیادہ نفیس ہوتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمررَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ (حج کے موقع پر) ایک غیر عربی اونٹ قربانی کے لئے لے گئے ،کسی نے آپ سے وہ اونٹ تین سو دیناروں  کے بدلے میں  طلب کیا،آپ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ نے حضور اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کیا کہ اسے بیچ کر ہلکا جانور خرید لوں  تو نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آپ کو روک دیا اور ارشاد فرمایا کہ اسی کی قربانی کرو۔

            یہ اس لئے فرمایا کہ تھوڑی اور عمدہ چیز زیادہ اور ہلکی چیز سے بہتر ہوتی ہے اور تین سو دیناروں  میں  تیس اونٹ آ سکتے تھے اور ان میں  گوشت بھی زیادہ ہوتا لیکن مقصود گوشت نہیں  تھا بلکہ مقصد تو نفس کو بخل سے پاک کرنا اور  اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے جمال سے مُزَیَّن کرنا ہے کیونکہ  اللہ تعالیٰ کو ہر گز ان کے گوشت اور خون نہیں  پہنچیں  گے بلکہ  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  تو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اور یہ مقصد اسی صورت حاصل ہونا ممکن ہے جب قیمت (اور دیگر چیزوں ) میں  عمدگی کا لحاظ رکھا جائے، تعداد کم ہو یا زیادہ۔( احیاء علوم الدین، کتاب اسرار الحج، الباب الثالث فی الآداب الدقیقۃ والاعمال الباطنۃ، ۱ / ۳۵۳)

            نوٹ: یاد رہے کہ جانور خریدتے وقت قیمت کم نہ کروائی جائے تو بہتر ہے لیکن اس میں  یہ ضرور دیکھ لیا جائے کہ وہ جانور اتنی قیمت کا بنتا بھی ہو، ایسا نہ ہو کہ جانور دبلا پتلا ہے اور ا س کی قیمت اتنی بتائی جا رہی ہے کہ عام طور پر ایسا جانور اس قیمت پر نہیں  ملتا۔ لہٰذا ایسی صورت میں  قیمت کم کروانا درست ہے۔

{فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ:تو یہ دلوں  کی پرہیزگاری سے ہے ۔} یعنی  اللہ تعالیٰ کی نشانیوں  کی تعظیم کرنا دلوں  کے پرہیز گار ہونے کی علامت ہے۔( روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۳۲، ۶ / ۳۲)

پرہیز گاری کا مرکز:

            اس آیت سے معلوم ہو اکہ دل پرہیزگاری کا مرکز ہے اور جب دل میں  تقویٰ و پرہیز گاری جم جائے گی تو ا س کا اثر دیگر اَعضا میں  خود ہی ظاہر ہو جائے گا۔ حضرت نعمان بن بشیر رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پُر نور صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان کے درمیان کچھ شُبہے والی چیزیں  ہیں  جنہیں بہت سے لوگ نہیں  جانتے تو جو شبہات سے بچے گا وہ اپنا دین اور اپنی آبرو بچالے گا اور جوشبہات میں  پڑے گا وہ حرام میں  مبتلا ہو جائے گا، جیسے جو چرواہا شاہی چراگاہ کے آس پاس چرائے تو قریب ہے کہ اس چراگاہ میں  جانور چرلیں  ۔ آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور  اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں  ہیں۔ آگاہ رہو کہ جسم میں  ایک گوشت کا ٹکڑاہے ،جب وہ ٹھیک ہوجائے تو سارا جسم ٹھیک ہوجاتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے، خبردار وہ دل ہے۔( بخاری، کتاب الایمان، باب فضل من استبرأ لدینہ، ۱ / ۳۳، الحدیث: ۵۲)

            امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  :دل بادشاہ کی طرح ہے اور اس کا جو لشکر آنکھ سے دکھائی دیتا ہے وہ ہاتھ، پاؤں ، آنکھ، زبان اور باقی تمام ظاہری و باطنی اَعضاہیں  ، یہ تمام دل کے خادم اور ا س کے قابو میں  ہیں  ،وہی ان سب میں  تَصَرُّف کرتا ہے اور انہیں  ادھر ادھر پھیرتا ہے، وہ تمام اس کی اطاعت پر مجبور ہیں  اور نہ اس سے اختلاف کرنے کی طاقت رکھتے ہیں  نہ اس سے سر کشی اختیار کر سکتے ہیں  ، جب وہ آنکھ کو کھلنے کا حکم دیتا ہے تو وہ کھل جاتی ہے، جب وہ پاؤں  کو حرکت کرنے کا حکم دیتا ہے تو وہ حرکت کرتا ہے اور جب وہ زبان کو بولنے کا حکم دیتا ہے تو وہ بولتی ہے اور اسی طرح دیگر اَعضا کا معاملہ ہے۔( احیاء علوم الدین، کتاب شرح عجائب القلب، بیان جنود القلب، ۳ / ۶)

             لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے دل کی اصلاح کی طرف بھر پور توجہ دے کیونکہ اس کی اصلاح کے بغیر دیگر اعضاء کی اصلاح مشکل ترین ہے۔