Home ≫ ur ≫ Surah Al Haqqah ≫ ayat 2 ≫ Translation ≫ Tafsir
اَلْحَآقَّةُ(1)مَا الْحَآقَّةُ(2)وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْحَآقَّةُﭤ(3)
تفسیر: صراط الجنان
{اَلْحَآقَّةُ: یقینی طور پر واقع ہونے والی۔} اس سے مراد قیامت ہے کیونکہ قیامت کا آنا درست اور ثابت ہے ،اس کے آنے میں کوئی شک نہیں بلکہ اس کا واقع ہونا یقینی اورقطعی ہے اور اس میں وہ چیزیں ثابت ہو جائیں گی جن کا دنیا میں انکار کیا جاتا ہے جیسے مرنے کے بعد اٹھایا جانا، حساب اور جزاء وغیرہ۔( قرطبی، الحاقۃ، تحت الآیۃ:۱-۲، ۹ / ۱۹۱، الجزء الثامن عشر، جلالین مع صاوی، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۶ / ۲۲۲۴، مدارک، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۱، ص۱۲۷۳، ملتقطاً)
{مَا الْحَآقَّةُ: یقینی طور پر واقع ہونے والی کیا ہے؟۔} یہ سوال قیامت کی عظمت اور بڑائی بیان کرنے کے طور پر ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت انتہائی عجیب اور عظیم الشّان ہے۔( مدارک، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۲۷۳، ابو سعود، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۵ / ۷۶۰، ملتقطاً)
{وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ: اور تمہیں کیا معلوم۔} یعنی تم قیامت کی حقیقت کو نہیں جانتے کیونکہ تم نے ا س کا مشاہدہ نہیں کیا اور نہ ہی اس میں موجود ہَولناکیوں کو دیکھا ہے اور اس کی دہشت،ہَولناکی اور شدّت ایسی ہے کہ انسان کسی طرح ا س کا اندازہ نہیں لگا سکتا اور نہ ہی کسی کی سوچ اس تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔( خازن، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۴ / ۳۰۲، مدارک، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳، ص۱۲۷۳، ملتقطاً)
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :یہاں یہ اِحتمال ہے کہ یہ بات دوسروں کو سنانے کے لئے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کہی گئی ہو۔( روح البیان، الحاقۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰ / ۱۳۱)