Home ≫ ur ≫ Surah Al Hashr ≫ ayat 10 ≫ Translation ≫ Tafsir
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(10)
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ: اوران کے بعد آنے والے۔} یعنی مہاجرین اور انصار کے بعد آنے والے عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمیں اورہمارے ان بھائیوں کوبخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کیلئے کوئی کینہ نہ رکھ، اے ہمارے رب! بیشک تو نہایت مہربان، رحمت والا ہے اور تو اپنی مہربانی اور رحم کے صدقے ہماری ا س دعا کو قبول فرما۔( روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۰، ۹ / ۴۳۶-۴۳۷)
یاد رہے کہ مہاجرین و انصار کے بعد آنے والوں میں قیامت تک پیدا ہونے والے تمام مسلمان داخل ہیں اور ان سے پہلے ایمان لانے والوں میں تمام صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ داخل ہیں ۔
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بغض رکھنے والے ایمان والوں کی اَقسام سے خارج ہیں ـ:
اس سے معلوم ہو اکہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے بارے دل میں کینہ نہ رکھناایمان کی علامت اور ان کے بارے میں بغض سے بچنے کی دعا کرنا مسلمانوں کا طریقہ ہے ۔ صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ـ:جس کے دِل میں کسی صحابی کی طرف سے بغض یا کدورت ہو اور وہ اُن کے لیے دعائے رحمت و اِستغفار نہ کرے، وہ مؤمنین کی اَقسام سے خارج ہے کیونکہ یہاں مومنین کی تین قسمیں فرمائی گئیں ۔ مہاجرین، انصاراور ان کے بعد والے جواُن کے تابع ہوں اور ان کی طرف سے دل میں کوئی کدورت نہ رکھیں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کریں تو جو صحابہ سے کدورت رکھے رافضی ہو یا خارجی وہ مسلمانوں کی ان تینوں قسموں سے خارج ہے۔( خزائن العرفان، الحشر، تحت الآیۃ: ۱۰، ص۱۰۱۱)
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بغض رکھنے کا نتیجہ:
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ وہ مبارک ہستیاں ہیں جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت اختیار کرنے کے لئے منتخب فرمایا اور ان کی عظمت و شان کو قرآنِ مجید میں بیان فرمایا،لیکن افسوس! کچھ لوگ خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں اوران کے سینے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے بغض سے بھرے ہوئے ہیں ،انہیں صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے لئے اِستغفار کرنے کاحکم دیا گیا لیکن یہ انہیں گالیاں دیتے ہیں جیساکہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا : لوگوں کو حکم تو یہ دیا گیا کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کیلئے اِستغفار کریں اور کرتے یہ ہیں کہ انہیں گالیاں دیتے ہیں ۔( مسلم، کتاب التفسیر، ص۱۶۱۱، الحدیث: ۱۵(۳۰۲۲))
ایسے لوگوں کے لئے درج ذیل حدیث ِپاک میں بڑی عبرت ہے ،چنانچہ
حضرت عبد اللّٰہ بن مغفل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ میرے صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے متعلق اللّٰہ سے ڈرو اللّٰہ سے ڈرو ،میرے صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے بارے میں اللّٰہ سے ڈرو اللّٰہ سے ڈرو، میرے بعد انہیں نشانہ نہ بناؤ کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللّٰہ کو ایذا دی اور جس نے اللّٰہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللّٰہ اسے پکڑے۔( ترمذی ، ابواب المناقب ، باب فیمن سبّ اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، ۵ / ۳۰۲ ، الحدیث : ۳۸۶۴ ، دار ابن کثیر، بیروت)
اللّٰہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے اور ان کے دلوں کو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی عظمت و شان سے معمور فرمائے،اٰمین ۔
مسلمانوں سے بغض نہ رکھنے کے سبب جنت کی بشارت ملی:
آیت ِپاک میں مذکور دعا سے یہ بھی معلوم ہواکہ ہمیں اپنے دل میں کسی بھی مسلمان کے بارے میں بغض اور کینہ نہیں رکھناچاہیے ، یہاں اسی سے متعلق ایک حدیث ِپاک ملاحظہ ہو ، چنانچہ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک بارہم سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضرتھے توآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:ابھی اہلِ جنت میں سے ایک آدمی تمہارے سامنے آئے گا،تو انصارمیں سے ایک شخص آیا جس کی داڑھی سے وضوکاپانی ٹپک رہاتھااوروہ بائیں ہاتھ میں اپناجوتالٹکائے ہواتھا۔پھرجب دوسرادن ہواتو رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’ابھی تمہارے سامنے اہل ِجنت میں سے ایک آدمی آئے گا،چنانچہ وہی آدمی اپنی پہلے دن والی کَیفِیّت کے مطابق آیا۔پھرجب تیسرادن آیاتوحضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھراسی طرح ارشاد فرمایا اور پھروہی آدمی آیا۔ جب رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لے گئے توحضرت عبداللّٰہ بن عمروبن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آدمی کے پیچھے گئے اورفرمایا:میرااپنے والد سے جھگڑاہوگیاہے اورمیں نے یہ قسم کھائی ہے کہ میں تین راتیں ان کے پاس نہیں جاؤں گا،لہٰذا اگرآپ مناسب خیال کریں تو میری قسم کا وقت ختم ہونے تک مجھے اپنے پاس رہنے کی اجازت دے دیں ۔اس نے کہا:ٹھیک ہے ۔
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے بتایا کہ انہوں نے تین راتیں ا س کے ساتھ گزاریں ،اس دوران انہوں نے رات میں کسی بھی وقت اس آدمی کو اٹھتے نہیں دیکھا،البتہ اس کا حال یہ تھاکہ جب وہ اپنے بسترپرکروٹ بدلتاتواللّٰہ تعالیٰ کاذکرکرتااوراس کی عظمت وکِبریائی بیان کرتا،یہاں تک کہ وہ صبح کی نمازکے لئے اٹھااورخوب اچھی طرح وضوکیا اورمیں نے اسے کلمہ ٔ خیرکہنے کے علاوہ کچھ کہتے نہیں سنا۔ جب تین راتیں گزر گئیں اورقریب تھاکہ میں اس کے عمل کوکم گمان کرتا تومیں نے کہا:اے اللّٰہ کے بندے !بے شک میرے اورمیرے والد کے درمیان کوئی جھگڑااورناراضی نہیں ہے اورنہ ہی کوئی فراق اورجدائی ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوتمہارے بارے میں تین مجالس میں تین باریہ فرماتے سناہے کہ ابھی تمہارے سامنے اہلِ جنت میں سے ایک آدمی داخل ہوگااورتینوں بارتم ہی آئے،چنانچہ میں نے ارادہ کیاکہ تمہارے پاس ٹھہرکر تمہارے عمل کودیکھوں ۔میں نے تمہیں کوئی بڑ اعمل کرتے نہیں پایا تو وہ کو نسا عمل ہے جس کی وجہ سے تم نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زبانِ اقدس سے یہ فضیلت پائی ۔اس نے کہا :میرا عمل وہی ہے جو آ پ نے دیکھا۔یہ بات سن کر میں واپس جانے کے لئے پلٹاتواس نے مجھے بلایااورکہا:عمل تووہی ہے جوآپ نے دیکھ لیاہے البتہ میں اپنے دل میں کبھی مسلمان کے بارے میں کوئی کینہ نہیں رکھتااورجو خیروبرکت اللّٰہ تعالیٰ نے اسے عطا فرمائی ہے اس پرکبھی حسد نہیں کرتا۔یہ سن کرحضرت عبداللّٰہ بن عمرو رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے اس سے فرمایا:یہی وہعمل ہے جس نے تجھے جنت میں پہنچادیاہے اوریہی وہ عمل ہے جس کی ہم طاقت اوراِستطاعت نہیں رکھتے ۔( سنن الکبری للنسائی، کتاب عمل الیوم واللیلۃ، ما یقول اذا انتبہ من منامہ، ۶ / ۲۱۵، الحدیث: ۱۰۶۹۹)
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ بغض اور کینہ رکھنے سے محفوظ فرمائے،اٰمین۔
آیت ’’وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے مزید تین باتیں معلوم ہوئیں
(1)…ہر مسلمان کو چاہئے کہ صرف اپنے لئے دعا نہ کرے بلکہ اپنے بزرگوں کے لئے بھی دعا کیا کرے ۔
(2)… بزرگانِ دین خصوصاً صحابہ ٔکرام اور اہل ِبیت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے عرس، ختم ،نیاز اور فاتحہ اعلیٰ چیزیں ہیں کہ ان میں ان بزرگوں کے لئے دعا ہے۔
(3)… مومن کی پہچان یہ ہے کہ تمام صحابہ ٔکرام اور اہل ِبیت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے اچھی عقیدت رکھے اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرے ۔