ترجمہ: کنزالایمان
اور جِن کو اس سے پہلے بنایا بے دھوئیں کی آگ سے۔
ترجمہ: کنزالعرفان
اور ہم نے اس سے پہلے جن کو بغیر دھویں والی آگ سے پیدا کیا۔
تفسیر: صراط الجنان
{وَ الْجَآنَّ :اور جن کو۔} حضرت قتادہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں
اس آیت میں ’’ اَلْجَآنَّ ‘‘ سے ابلیس مراد ہے ۔ یہ حضرت آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے پیدا کیا گیا ،جب ا
بلیس کے بعد حضرت آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش ہوئی تو ابلیس نے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ملنے
والے مقام و مرتبہ کی بنا پر ان سے حسد کیا اور کہا میں آگ سے بنا ہوں اور یہ مٹی سے ۔ (تفسیر طبری،
الحجر، تحت الآیۃ: ۲۶، ۷ / ۵۱۳)
نوٹ:یاد رہے کہ ’’ اَلْجَآنَّ‘‘ سے متعلق مفسرین کے اور
بھی اَقوال ہیں ۔
{مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ:بغیر دھویں والی آگ سے ۔} یعنی ابلیس کو حضرت آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے اس آگ سے پیدا کیا
جس میں دھواں نہیں ہوتا ۔
سورت کا تعارف
سورۂ حِجْر کاتعارف
مقامِ نزول:
سورۂ حِجْر مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔ (خازن،
تفسیر سورۃ الحجر،۳ / ۹۳)
رکوع اورآیات کی تعداد:
اس سورت میں چھ 6رکوع اور 99
آیتیں ہیں ۔
’’حِجْر ‘‘نام رکھنے کی وجہ :
حِجْر، مدینہ منورہ اور شام کے
درمیان ایک وادی کا نام ہے، اور اِ س سورت کی آیت نمبر 80 تا 84 میں اُس وادی میں
رہنے والی قومِ ثمود کا واقعہ بیان کیا گیاہے، ا س مناسبت سے اس کا نام ’’ سورۂ حِجْر‘‘ رکھا گیا۔
حِجْر کے بارے میں اَحادیث:
(1) …حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں :نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حِجْر والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا’’تم اس(عذاب یافتہ) قوم کے پاس سے روتے ہوئے گزرو اور اگر تم رو نہیں
سکتے تو ان کے پاس سے نہ گزرو تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی وہی عذاب آ جائے
جو ان پر نازل ہواتھا۔ (بخاری، کتاب التفسیر،
سورۃ حجر، باب ولقد کذّب اصحاب الحجر المرسلین، ۳ / ۲۵۵، الحدیث: ۴۷۰۲)
(1) … حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں جب رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حِجْر کے مقام سے گزرے تو ارشاد فرمایا ’’ تم (کفر کر کے اپنی جانوں پر) ظلم کرنے والوں کے گھروں
میں روتے ہوئے داخل ہونا تا کہ تم پر بھی وہی عذاب نہ آ جائے جو ان پر نازل ہوا
تھا۔ پھر حضور اقدس صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی چادر سے سر اور چہرے کو ڈھانپ لیا اور اس
وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی سواری پر تھے۔ (بخاری، کتاب احادیث
الانبیاء، باب قول اللّٰہ تعالی: والی ثمود اخاہم صالحاً، ۲ / ۴۳۲، الحدیث: ۳۳۸۰)
مضامین
سورۂ حِجْرکے مَضامین:
مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی دیگر
سورتوں کی طرح اس سورت کا مرکزی مضمون بھی
یہ ہے کہ اس میں اللّٰہ تعالیٰکی وحدانیت اور ا س کی قدرت، نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی نبوت،مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور
اعمال کی جزاء ملنے کو کئی طرح کے دلائل سے ثابت کیا گیا ہے،اور اس کے
علاوہ اس سورت میں درج ذیل مضامین بیان
کئے گئے ہیں ۔
(1) …قرآن پاک کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللّٰہ تعالیٰ نے لی ہے۔
(2) …اللّٰہ تعالیٰ کے
انبیاء اور رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ کفار و مشرکین کا طرزِ عمل بیان کیا گیا ہے۔
(3) …آسمان کو مردود شیطانوں سے محفوظ کئے جانے کا ذکر کیا گیا۔
(4) …اللّٰہ تعالیٰ کی
وحدانیت اورا س کی قدرت پر دلالت کرنے والی چیزیں بیان کی گئیں ۔
(5) … حضرت آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق ،فرشتوں کے سجدہ کرنے ،شیطان کے سجدہ نہ کر کے مردود
ہونے اور شیطان کے مہلت طلب کرنے کا واقعہ بیان کیا گیا۔
(6) …متقی لوگوں کی اُخروی جزاء بیان کی گئی۔
(7) …حضرت ابراہیم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مہمان فرشتوں کا واقعہ بیان فرمایاگیا۔
(8)… اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تسلی کے لئے اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم کا واقعہ ،
حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اصحاب
اَیکہ کا واقعہ،حضرت صالح عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی قوم ثمود کا
واقعہ بیان فرمایا۔
(9) …اس سورت کے آخر میں اللّٰہ تعالیٰ نے وہ انعامات بیان فرمائے جو ا س نے اپنے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو عطا کئے ہیں۔
مناسبت
سورۂ
ابراہیم کے ساتھ مناسبت:
سورۂحِجْر کی اپنے
سے ماقبل سورت’’ابراہیم‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ سورۂ ابراہیم کے آخر میں قیامت کے
حالات بیان کئے گئے کہ اس دن زمین کو دوسری زمین سے اور آسمانوں کو بدل دیا جائے گا اور تمام لوگ ایک اللّٰہعَزَّوَجَلَّکے حضور نکل کھڑے ہوں گے جو سب پر
غالب ہے اور اس دن تم مجرموں کو بیڑیوں میں ایک
دوسرے سے بندھا ہوا دیکھو گے ،ان کے کُرتے تارکول کے ہوں گے اور ان کے چہروں کو آ گ ڈھانپ لے گی۔ اور سورۂ حِجْرکی ابتداء میں بیان کیاگیا کہ جب ان مجرموں کوجہنم میں لمبا عرصہ گزر جائے گا اور وہ گناہگار مسلمانوں کو جہنم سے نکلتا ہوا دیکھیں گے تو اس وقت وہ بہت آرزوئیں کریں گے
کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔ (تناسق الدرر، سورۃ الحجر، ص۹۷)