Home ≫ ur ≫ Surah Al Hijr ≫ ayat 32 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالَ یٰۤـاِبْلِیْسُ مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(32)قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(33)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالَ:ابلیس نے کہا۔} اس کلام سے ابلیس کی مراد یہ تھی کہ وہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل ہے،
کیونکہ حضرت آدم عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اصل مٹی ہے اور ابلیس کی اصل آگ ہے اور( اس کے خیال میں ) آگ چونکہ مٹی سے
افضل ہے اس لئے ابلیس نے اپنے گمان میں خود کو حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے افضل سمجھا لیکن وہ خبیث یہ بات بھول گیا
تھا کہ افضل تو وہی ہے جسے اللّٰہ
تعالیٰ فضیلت عطا کرے۔(خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۳۳، ۳ / ۱۰۲)
شیطان کے تین گناہ اور ان
کا انجام:
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو سجدہ نہ کرنے اور اس
کی وجہ بیان کرنے میں شیطان نے تین گناہوں کا اِرتکاب کیا۔ (1) اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی۔ (2) بارگاہِ
الٰہی کی مقرب ہستیوں کی جماعت سے جدا راستہ اختیار کیا۔ (3) حضرت
آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام سے خود کو افضل بتا کر
تکبر کیا۔ ان تین گناہوں کا انجام یہ ہوا کہ ابلیس کی ہزاروں برس کی عبادت و ریاضت
برباد ہو گئی، فرشتوں کا استاد ہونے کی عظمت چھن گئی، اسے بارگاہِ الٰہی سے مردود
و رسوا کر کے نکال دیا گیا، قیامت تک کے لئے اس کے گلے میں لعنت کا طوق ڈال دیا
گیا اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں جلنے کی سزا دے دی گئی۔ شیطان کے
گناہوں اور اس کے عبرت ناک انجام کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ
عمومی طور پر تما م گناہوں اور خاص طور پر
ان تین گناہوں سے بچے اور اپنے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ
کی خفیہ تدبیر سے ڈرتا رہے۔ اسی سلسلے میں اللّٰہ تعالیٰ
کے مقرب فرشتے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ
السَّلَام کا حال سنئے،چنانچہ نبی
اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مروی ہے کہ آپ نے حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کو دیکھا کہ( ابلیس کے انجام سے عبرت گیر ہو کر) کعبۂ مشرفہ کے پردہ سے لپٹ کر نہایت گریہ وزاری کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا کر رہے ہیں ، ’’اِلٰھِیْ لَا تُغَیِّرْ اِسْمِیْ وَلَا تُبَدِّلْ
جِسْمِیْ۔ یعنی اے میرے اللّٰہ! کہیں میرا نام نیکوں کی
فہرست سے نہ نکال دینا اور کہیں میرا جسم اہلِ عطا کے زُمرہ سے نکال کر اہلِ عتاب
کے گروہ میں شامل نہ فرما دینا۔(منہاج العابدین، العقبۃ
الخامسۃ، اصول سلوک طریق الخوف والرجاء،
الاصل الثانی، ص۱۶۰) جب گناہوں سے معصوم اور
بارگاہِ الٰہی کے مقرب ترین فرشتے کے خوف کا یہ حال ہے تو گناہوں میں لتھڑے ہوئے مسلمان کو تو کہیں زیادہ ڈرنا اور اپنے انجام کے
بارے میں فکر مند ہونا چاہئے۔