Home ≫ ur ≫ Surah Al Hijr ≫ ayat 60 ≫ Translation ≫ Tafsir
قَالُـوْۤا اِنَّـاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ(58)اِلَّاۤ اٰلَ لُوْطٍؕ-اِنَّا لَمُنَجُّوْهُمْ اَجْمَعِیْنَ(59)اِلَّا امْرَاَتَهٗ قَدَّرْنَاۤۙ-اِنَّهَا لَمِنَ الْغٰبِرِیْنَ(60)
تفسیر: صراط الجنان
{قَالُوْا:انہوں نے عرض کیا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ فرشتوں نے عرض کی: ہم ایک مجرم قوم یعنی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ہم انہیں ہلاک کردیں البتہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گھر والوں کو بچا لیں گے کیونکہ وہ ایماندار ہیں ۔ (جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۵۸-۵۹، ص۲۱۳)
{اِلَّاۤ اٰلَ لُوْطٍ:سوائے لوط کے گھر والوں کے۔} اس آیت میں مذکور’’ اٰلَ لُوْطٍ‘‘میں حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سارے مُتَّبِعین داخل ہیں ۔
اللّٰہ تعالیٰ کے بعض کام اس کے محبوب بندوں کی طرف منسوب ہو سکتے ہیں :
اس آیت میں فرشتوں نے جو یہ کہا کہ ’’ اِنَّا لَمُنَجُّوْهُمْ اَجْمَعِیْنَ‘‘ اس سے معلوم ہو اکہ اللّٰہ تعالیٰ کے بعض کام اس کے محبوب بندوں کی طرف منسوب کئے جا سکتے ہیں ،جیسے عذاب سے بچا لینا اللّٰہ تعالیٰ کا کام ہے، مگر فرشتوں نے کہا ’’ان سب کو ہم بچالیں گے‘‘ لہٰذا مسلمان یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے عذاب سے بچائیں گے اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، ہمیں دوزخ سے بچالیں ۔
{اِلَّا امْرَاَتَهٗ:مگر اس کی بیوی کو۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی کا نام واہلہ تھا اور یہ چونکہ کافرہ تھی اس لئے یہ بھی عذاب والوں میں سے ہوئی۔
آیت ’’ اِلَّا امْرَاَتَهٗ قَدَّرْنَا‘‘سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں
(1)… نیک بختی اور بد بختی کا علم اللّٰہ تعالیٰ نے فرشتوں کو دیا ہے اور فرشتے اللّٰہ تعالیٰ کی عطا سے جانتے ہیں کہ کون مومن مرے گا اور کون کافر۔
(2)…اس بات کو سمجھنے سے پہلے یہ سوال و جواب پڑھئے۔ سوال: حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیوی کا پیچھے رہ جانے والوں میں طے کرنا اللّٰہ تعالیٰ کا کام ہے، تو فرشتوں نے اس کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف کرنے کی بجائے اپنی طرف کیوں کی؟ اس کے جواب میں امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’فرشتوں نے طے کرنے کی نسبت اپنی طرف اس لئے کی کہ انہیں اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خاص مقام اور قرب حاصل ہے جیسے بادشاہ کے خاص آدمی یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس طرح تدبیر کی ، ہم نے اس طرح حکم دیا حالانکہ تدبیر کرنے والا اور حکم دینے والا تو بادشاہ ہوتا ہے نہ کہ وہ لوگ ہوتے ہیں اور ا س کلام سے محض اُن کی مراد بادشاہ کے پاس انہیں حاصل مقام و مرتبہ ظاہر کرنا ہوتا ہے تو اسی طرح یہاں ہے (کہ فرشتوں کے اس کلام سے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انہیں حاصل مقام و مرتبہ ظاہر ہو رہا ہے) (تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۰، ۷ / ۱۵۳) اس سے معلوم ہوا کہ جسے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خاص مقام اور قرب حاصل ہو وہ اللّٰہ تعالیٰ کے بعض کاموں کو اپنی طرف منسوب کر سکتاہے ،قرآنِ مجید میں ہی اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ کسی کو زندہ کرنا اور مریض کو شفا دینا در حقیقت اللّٰہ تعالیٰ کا کام ہے اور اس کام کی نسبت حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی طرف کرتے ہوئے فرمایا: ’’ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ‘‘(اٰل عمران:۴۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے جیسی ایک شکل بناتاہوں پھر اس میں پھونک ماروں گا تو وہ اللّٰہ کے حکم سے فوراً پرندہ بن جائے گی اور میں پیدائشی اندھوں کو اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور میں اللّٰہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتا ہوں ۔