banner image

Home ur Surah Al Hijr ayat 67 Translation Tafsir

اَلْحِجْر

Al Hijr

HR Background

وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ یَسْتَبْشِرُوْنَ(67)قَالَ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ ضَیْفِیْ فَلَا تَفْضَحُوْنِ(68)وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ(69)

ترجمہ: کنزالایمان اور شہر والے خوشیاں مناتے آئے۔ لوط نے کہا یہ میرے مہمان ہیں مجھے فضیحت نہ کرو۔ اور اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔ ترجمہ: کنزالعرفان اور شہر والے خوشی خوشی آئے۔ لوط نے فرمایا: یہ میرے مہمان ہیں تو تم مجھے شرمندہ نہ کرو ۔ اور اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔

تفسیر: ‎صراط الجنان

{وَ جَآءَ اَهْلُ الْمَدِیْنَةِ:اور شہر والے آئے۔} حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے لوگ شہرِ سدوم میں  آباد تھے ، انہوں  نے جب حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہاں  خوب صورت نوجوانوں  کے آنے کی خبرسنی جوکہ فرشتے تھے تو یہ لوگ فاسد ارادے اور ناپاک نیت کے ساتھ خوشی خوشی آئے۔ (جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۷، ص۲۱۴، ملخصاً)

{قَالَ:فرمایا۔} یعنی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’ یہ میرے مہمان ہیں  اور مہمان کا اکرام لازم ہوتا ہے تم اُن کی بے حرمتی کا قصد کرکے  مجھے شرمندہ نہ کرو کہ مہمان کی رسوائی میزبان کے لئے خَجالت اور شرمندگی کا سبب ہوتی ہے۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۸، ۳ / ۱۰۶، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۸، ص۵۸۵، ملتقطاً)

تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مہمان نوازی:

اس سے معلوم ہوا کہ مہمان کی عزت و احترام اور خاطر تواضع کرنا انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے اگرچہ میزبان اس سے واقف بھی نہ ہو ۔ یہاں  سیّدُ المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مہمان نوازی کے 3 واقعات ملاحظہ ہوں :

(1)…حضرت ابو رافع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : ایک شخص حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہمان بنا ، اس وقت آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے اس کی مہمان نوازی فرماتے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے ایک یہودی شخص کے پاس بھیجا (اور مجھ سے فرمایا کہ اس سے کہو:) محمد (مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) تم سے کہتے ہیں  کہ (میرے پاس مہمان آیا ہے اس لئے) مجھے رجب کا چاند نظر آنے تک آٹا قرض دے دو۔ یہودی نے کہا: اس وقت تک آٹا نہیں ملے جب تک کوئی چیز رہن نہ رکھو گے ۔ میں  حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوا اور انہیں یہودی کی بات بتائی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!میں  آسمان میں بھی امین ہوں  زمین پر بھی امین ہوں،اگر مجھے آٹا قرض دے دیتا یا بیچ دیتا تو میں  ضرور اسے ادا کر دیتا، اب تم میری لوہے کی زرہ لے جاؤ (اور اسے رہن رکھ دو) چنانچہ میں  وہ زرہ لے گیا (اور اسے رہن رکھ کر آٹا لے آیا)(معجم الکبیر، یزید بن عبد اللّٰہ بن قسیط عن ابی رافع، ۱ / ۳۳۱، الحدیث: ۹۸۹، معرفۃ الصحابہ، باب الالف، اسلم ابو رافع، ۱ / ۲۴۱، الحدیث: ۸۶۵، ملتقطاً)

(2)…مصنف ابن ابی شیبہ میں  ہے کہ ایک دیہاتی رسول کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  حاضر ہوا اور بھوک کی شکایت کی تو آپ اپنی (ازواجِ مطہرات کے) گھروں  میں  تشریف لے گئے ،پھر باہر تشریف لائے تو ارشاد فرمایا ’’مجھے آلِ محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے گھروں  میں  تیرے لئے کوئی چیز نہیں  ملی، اسی دوران (کسی کی طرف سے) آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں  بھنی ہوئی بکری پیش ہوئی تو اسے دیہاتی کے سامنے رکھ دیا گیا۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے  اس  سے فرمایا ’’تم کھاؤ۔ اس نے کھایا، پھر عرض کی :یا رسولَ اللّٰہ !صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے بھوک کی تکلیف پہنچی تو اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ اقدس سے مجھے رزق دے دیا، اگر پھر کبھی ایسا ہو اور میں  آپ کی بارگاہ میں  حاضر نہ ہوں  تو کیا کروں ؟ ارشاد فرمایا تم کہو ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْاَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ ، فَاِنَّہٗ لَا یَمْلِکُہُمَا اِلَّا اَنْتَ‘‘اے اللّٰہ!میں  تجھ سے تیرے فضل اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں  کیونکہ فضل ورحمت کا صرف تو ہی مالک ہے۔‘‘  تو بے شک اللّٰہ تعالیٰ تجھے رزق دینے والا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء، الرّجل یصیبہ الجوع او یضیق علیہ الرزق ما یدعو بہ، ۷ / ۹۴، الحدیث: ۱)

(3)… تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اپنی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں  مہمان نوازی فرمانا تو اپنی جگہ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مزارِ اقدس میں  تشریف لے جانے کے بعد بھی اپنے در پہ حاضر ہونے والے بہت سے لوگوں کی مہمان نوازی فرماتے ہیں  چنانچہ حضرت ابو الخیر حماد بن عبداللّٰہ اقطع رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  ’’میں  رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شہر (مدینہ منورہ) میں  داخل ہوا اور (اس وقت) میں  فاقے کی حالت میں  تھا، میں  نے پانچ دن قیام کیا اور اتنے دن میں  کھانے پینے کی کوئی چیز تک نہ چکھ سکا، (بالآخر) میں  قبرِ انور کے پاس حاضر ہوا اور حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکی بارگاہ میں  سلام پیش کیا اور عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں  آج کی رات آپ کا مہمان ہوں  ۔پھر میں  اپنی جگہ سے ہٹ کر منبرِ اقدس کے پیچھے سو گیا تو میں  نے خواب میں  نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت کی، حضرت ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے دائیں  طرف، حضرت عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آپ کے بائیں  طرف اور حضرت علی بن ابو طالب کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم آپ کے سامنے تھے، حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے مجھے حرکت دی اور فرمایا: کھڑے ہو جاؤ، رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے ہیں ۔ میں  کھڑے ہو کر بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں  حاضر ہوا اور آپ کی دونوں  آنکھوں  کے درمیان بوسہ دیا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے ایک روٹی عطا فرمائی تو میں  نے آدھی روٹی کھا لی،پھر میں  خواب سے بیدار ہوا توبقیہ آدھی روٹی میرے ہاتھ میں تھی۔(تاریخ دمشق، ابو الخیر الاقطع التیتانی، ۶۶ / ۱۶۱) یہ واقعہ علامہ ابن عساکر رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے علاوہ علامہ عبد الرحمٰن بن علی جوزی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی کتاب ’’صِفَۃُ الصَّفْوَہ‘‘جلد2 صفحہ 236 جزء 4 پر، علامہ عبد الوہاب شعرانی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے طبقات الکبریٰ جلد 1 صفحہ 154 جزء1 پر، علامہ عمر بن علی شافعی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے طبقاتِ اولیا، صفحہ 192-191 پر اور علامہ ابو عبد الرحمٰن محمد بن حسین رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے طبقاتِ صوفیہ صفحہ 281پر بھی ذکر فرمایاہے۔

{وَ اتَّقُوا اللّٰهَ:اور اللّٰہ سے ڈرو۔} یعنی مہمانوں  کے معاملے میں تم اللّٰہ تعالیٰ (کے عذاب) سے ڈرو اور میرے مہمانوں  کے ساتھ برا ارادہ کر کے مجھے رسوا نہ کرو۔ (خازن، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۹، ۳ / ۱۰۶، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۶۹، ص۵۸۵، ملتقطاً)

مہمان کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا سبب ہے:

اس سے معلوم ہوا کہ جیسے مہمان کے احترام میں  میزبان کی عزت ہوتی ہے ایسے ہی مہمان کی بے عزتی میزبان کی رسوائی کا باعث ہوتی ہے ،اس لئے اگر کسی مسلمان پڑوسی یا رشتہ دار کے ہاں  کوئی مہمان آیا ہو تو دوسرے مسلمان کو چاہئے کہ وہ بھی ا س کے مہمان کا احترام کرے تاکہ اس کی عزت و وقار قائم رہے اور مہمان کی بے عزتی کرنے یا کوئی ایسا کام کرنے سے بچے جس سے مہمان اپنی بے عزتی محسوس کرے تاکہ یہ چیز میزبان کے لئے شرمندگی اور رسوائی کا باعث نہ بنے۔