Home ≫ ur ≫ Surah Al Hijr ≫ ayat 75 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِیْنَ(75)وَ اِنَّهَا لَبِسَبِیْلٍ مُّقِیْمٍ(76)اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَﭤ(77)
تفسیر: صراط الجنان
{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ:بیشک اس میں ۔} یعنی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کا ان کے مہمانوں کی بے حرمتی کرنے کا قصد کرنے اور ان کی بستیوں کو الٹ دئیے جانے اور ان پر پتھروں کی بارش ہونے میں غور کر کے عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں جن کے ذریعے وہ حق کی حقیقت پر اِستدلال کر سکتے ہیں ۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۵، ۴ / ۴۸۰)
{وَ اِنَّهَا:اور بیشک وہ بستیاں ۔} اس آیت میں کفار کو تنبیہ کی گئی ہے کہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی بستیاں ملکِ شام کی طرف جانے والی گزرگاہ پر ہیں اور لوگوں کے قافلے وہاں سے گزرتے ہیں اور غضبِ الٰہی کے آثار اُن کے دیکھنے میں آتے ہیں تو کیا وہ ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔(جلالین، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۲۱۴، مدارک، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۶، ص۵۸۶، ملتقطاً)
{اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً:بیشک اس میں نشانیاں ہیں ۔} یعنی ان بستیوں کے آثار جو کہ وہاں سے گزرنے والوں کے مشاہدے میں آتے ہیں ، ان میں اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کے لئے نشانیاں ہیں کہ وہ انہیں دیکھ کر پہچان جاتے ہیں کہ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں بلکہ جس عذاب کی وجہ سے ان کے شہر اجڑ گئے وہ ان کے برے کاموں کی وجہ سے ان پر آیا تھا۔ (روح البیان، الحجر، تحت الآیۃ: ۷۷،۴ / ۴۸۰)اس سے معلوم ہوا کہ ایمان اور دین ، عقل اور فراست اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اس سے تقویٰ اور طہارت نصیب ہوتی ہے۔ بے عقل ،غافل اور کافر ایسے واقعات کو اتفاقی یا آسمانی تاثیرات سے مانتا ہے جیسا کہ آج بھی دیکھا جا رہا ہے، لیکن عقلمند مومن ان کو مخلوق کی بد عملی کا نتیجہ جان کر دل میں اللّٰہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرتا ہے۔