Home ≫ ur ≫ Surah Al Hujurat ≫ ayat 2 ≫ Translation ≫ Tafsir
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(2)
تفسیر: صراط الجنان
{یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ: اے ایمان والو! اپنی
آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔} اس آیت ِمبارکہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کواپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دو عظیم
آداب سکھائے ہیں،پہلا ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تم سے کلام فرمائیں اور
تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی
آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو ۔دوسرا
ادب یہ ہے کہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو
ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر
پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم
اور توصیف وتکریم کے کلمات اور عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ
وَسَلَّمَ، یا نَبِیَّ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیونکہ ترکِ
ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ
ہو گی ۔( قرطبی، الحجرات، تحت الآیۃ: ۲، ۸ / ۲۲۰، الجزء السادس عشر)
مفسرین نے اس آیت کے
شانِ نزول کے بارے میں مختلف روایات ذکر کی ہیں ،ان میں سے چندروایت درج ذیل ہیں :
(1)…حضرت ابن اَبی مُلیکہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :
دو بہترین حضرات ہلاک ہونے کے قریب جا پہنچے تھے، ہُوا یوں کہ حضرت ابو
بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہُمَا نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں اس
وقت اپنی آوازیں اونچی کر دی تھیں جب بنو تمیم کے سوار بارگاہِ رسالت میں حاضر
ہوئے تھے ،اُن میں سے ایک صاحب نے بنی مجاشع کے بھائی اقرع بن حابس کی طرف اشارہ
کیا(کہ انہیں ان کی قوم کا
حاکم بنا دیاجائے) اور
دوسرے نے ایک اور شخص کی جانب اشارہ کیا۔حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت عمر رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا:آپ(یہ کہہ کر) میری مخالفت کرنا چاہتے
ہیں ۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا:میں تو آپ کی
مخالفت کرنا نہیں چاہتا۔ یہ گفتگو کرتے ہوئے ان دونوں حضرات کی آوازیں بلند ہو
گئیں ،اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی
’’ یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ۔۔۔الایہ‘‘۔(بخاری،کتاب التفسیر، باب
لا ترفعوا اصواتکم... الخ، ۳ / ۳۳۱، الحدیث : ۴۸۴۵)
صحیح بخاری شریف کی دوسری
روایت میں ہے ،حضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے یہی واقعہ مروی
ہے ،البتہ اس کے آخر میں یہ ہے کہ ’’اس گفتگو کے دوران ان کی آوازیں بلند ہو
گئیں تو اس معاملے میں یہ آیت نازل ہوئی ’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تُقَدِّمُوْا‘‘ یہاں تک کہ آیت (’’ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘ تک) پوری ہوگئی۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب اِنّ الذین یُنادونک... الخ، ۳ / ۳۳۲، الحدیث: ۴۸۴۷) اس صورت میں اس
شانِ نزول کا تعلق آیت نمبر 1اور2دونوں سے ہے ۔
(2)… دوسرا
شانِ نزول یہ بیان ہوا ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی
بارگاہ میں منافقین اپنی آوازیں بلند کیا کرتے تھے تاکہ کمزور مسلمان(اس معاملے میں )ان کی پیروی کریں ،اس پر
مسلمانوں کوبارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں آواز بلند کرنے سے
منع کر دیا گیا (تاکہ منافق اپنے
مقصد میں کامیاب نہ ہوں)( قرطبی، الحجرات،
تحت الآیۃ : ۲، ۸ / ۲۲۰، الجزء السادس عشر)
(3)…تیسرا شانِ
نزول یہ بیان کیا گیا ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ یہ
آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں نازل
ہوئی، وہ اونچا سنا کرتے تھے ، اُن کی آواز بھی اُونچی تھی اور بات کرنے
میں آواز بلند ہوجایا کرتی تھی اور بعض اوقات اس سے حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اَذِیَّت ہوتی تھی۔( مدارک، الحجرات، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۱۵۰)
حضرت
ثابت بن قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا بلند آوازسے بات کرنا
اگرچہ اونچا سننے کی معذوری کی بنا پر تھا لیکن معذوری اونچا سننا تھا نہ کہ اونچا
بولنا کیونکہ اونچا سننے والے کیلئے اونچا بولنا تو ضروری نہیں اور اونچا سننے
والے کو سمجھایا جائے کہ بھائی، تمہیں اونچا سنتا ہے ، دوسروں کو نہیں لہٰذا تم
اپنی آواز پَست رکھو تو اس کہنے میں حرج نہیں بلکہ یہ عین درست اور قابلِ عمل بات
ہے اور تیسرے شانِ نزول کے اعتبار سے یہی تفہیم کی گئی ہے۔
نوٹ: اس
آیت کے شانِ نزول سے متعلق اور بھی روایات ہیں ،ممکن ہے کہ اس آیت کے نزول سے
پہلے مختلف اسباب پیدا ہوئے ہوں اور بعد میں ایک ہی مرتبہ یہ آیت نازل
ہو گئی ہو،جیسا کہ علامہ ابنِ حجر عسقلانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس بات سے کوئی چیز مانع نہیں کہ آیت کا نزول مختلف
اَسباب کی وجہ سے ہوا ہوجو آیت نازل ہونے سے پہلے وقوع پَزیر ہوئے تھے اور جب ان (روایات جن میں یہ) اَسباب (بیان ہوئے،) کی اسناد صحیح ہیں اور ان
میں تطبیق واضح ہے تو پھر ان میں سے کسی کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔(فتح الباری، کتاب التفسیر، باب لاترفعوا اصواتکم... الخ، ۹ / ۵۱۰، تحت الحدیث: ۴۸۴۶)
نیزیہ بھی ضروری نہیں ہے
کہ صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے کوئی بے ادبی سرزَد
ہوئی ہو جس پر انہیں تنبیہ کی گئی ہو،عین ممکن ہے کہ پیش بندی کے طور پر انہیں یہ
آداب تعلیم فرمائے گئے ہوں اور بے ادبی کی سزا سے آگاہ کیا گیا ہو۔
آیت ’’لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ‘‘ کے نزول کے بعد صحابہ
ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کا حال:
جب یہ آیت ِمبارکہ نازل
ہوئی تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ بہت محتاط ہو گئے اور
تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے گفتگو کے دوران بہت سی
احتیاطوں کو اپنے اوپر لازم کر لیا تاکہ آواز زیادہ بلند نہ ہو جائے، نیز اپنے
علاوہ دوسروں کو بھی ا س ادب کی سختی سے تلقین کرتے تھے ،اسی طرح آپ کے وصالِ
ظاہری کے بعد آپ کے روضۂ انور کے پاس (خود بھی آواز بلند نہ کرتے اور) دوسروں کو بھی آواز
اونچی کرنے سے منع کرتے تھے،یہاں اسی سے متعلق 6 واقعات ملاحظہ ہوں :
(1)… حضرت ابو بکر
صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:جب یہ آیت ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ‘‘ نازل ہوئی تو میں نے عرض
کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، اللہ تعالیٰ کی قسم! آئندہ میں آپ سے سرگوشی کے
انداز میں بات کیا کروں گا۔( کنزالعمال،کتاب
الاذکار،قسم الافعال،فصل فی التفسیر،سورۃ الحجرات،۱ / ۲۱۴، الجزء الثانی، الحدیث: ۴۶۰۴)
(2)…حضرت عبداللہ بن زبیر رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :یہ آیت نازل ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا
حال یہ تھا کہ آپ رسولِ کریم صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی
بارگاہ میں بہت آہستہ آواز سے بات کرتے حتّٰی کہ بعض اوقات حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بات سمجھنے کے لئے
دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ کیا کہتے ہو۔( ترمذی، کتاب التفسیر،
باب ومن سورۃ الحجرات، ۵ / ۱۷۷، الحدیث: ۳۲۷۷)
(3)…حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :جب یہ آیت
نازل ہوئی تو حضرت ثابت رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہُ اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور (اللہ تعالیٰ کے خوف کی
وجہ سے) کہنے لگے: میں اہلِ نار
سے ہوں ۔(جب یہ کچھ عرصہ بارگاہِ
رسالت میں حاضر نہ ہوئے تو) حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے اُن کا حال دریافت فرمایا، انہوں نے عرض کی: وہ میرے پڑوسی
ہیں اور میری معلومات کے مطابق انہیں کوئی بیماری بھی نہیں ہے۔ حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے اس بات کا ذکر کیا تو
آپ نے کہا:یہ آیت نازل ہوئی ہے اور تم لوگ جانتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ بلند
آواز ہوں (اور جب ایسا ہے) تو میں جہنمی ہوگیا ۔حضرت
سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ صورت ِحال حضور پُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کی
تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’(وہ جہنمی نہیں) بلکہ وہ جنت والوں میں سے ہیں ۔(مسلم،
کتاب الایمان، باب مخافۃ المؤمن ان یحبط عملہ، ص۷۳، الحدیث: ۱۸۷(۱۱۹))
نوٹ:صحیح مسلم کی اس
روایت میں حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہُ کا ذکر ہے اور تفسیر ابنِ
منذر میں حضرت انس رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہُ سے ہی مروی یہی واقعہ
مذکور ہے، اس میں حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہُ کی بجائے حضرت سعد
بن عبادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا ذکر ہے ،اس کے بارے
میں علامہ ابنِ حجر عسقلانی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضرت
سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے پوچھنا
زیادہ درست ہے کیونکہ آپ کا تعلق حضرت ثابت بن قیس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے
قبیلہ (خزرج) سے ہے اور حضرت سعد بن
معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے مقابلے میں ان کا حضرت
ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا
پڑوسی ہونا زیادہ واضح ہے کیونکہ حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا تعلق دوسرے قبیلے (یعنی اَوس) سے تھا۔( فتح الباری، کتاب المناقب، باب علامات النّبوۃ فی
الاسلام، ۷ / ۵۱۷، تحت الحدیث: ۳۶۱۳)
نیز اس کی تائید اس بات
سے بھی ہوتی ہے کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب
بنو تمیم کا وفد سر کارِ دو عالَم صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی
بارگاہ میں حاضر ہوا اور یہ سن 9ہجری کا واقعہ ہے جبکہ حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ تو سن 5ہجری میں غزوہ
بنوقریظہ کے بعد وفات پا گئے تھے اور حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی وفات نبی کریم صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے
وصالِ ظاہری کے بہت بعد کی ہے ۔
(4)… حضرت نعمان بن
بشیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:میں رسولِ
کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے منبر کے پاس تھا،ایک
شخص نے کہا:اسلام لانے کے بعد اگر میں صرف حاجیوں کو پانی پلانے کے علاوہ اور کوئی
کام نہ کروں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔دوسرے شخص نے کہا:اسلام لانے کے بعد اگر
میں مسجد ِحرام کو آباد کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہ کروں تو مجھے کوئی پرواہ
نہیں ہے۔تیسرے شخص نے کہا:اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد
کرنا تمہاری کہی ہوئی باتوں سے افضل ہے۔حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں ڈانٹتے ہوئے
فرمایا: ’’رسولُ اللہ صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے
منبر کے پاس اپنی آواز بلند نہ کرو۔( مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الشّہادۃ فی سبیل اللّٰہ
تعالی، ص۱۰۴۴، الحدیث: ۱۱۱(۱۸۷۹))
(5)… ایک مرتبہ حضرت
عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے مسجد ِنَبوی میں دو
شخصوں کی بلند آواز سنی تو آپ (ان کے پاس) تشریف لائے اور فرمایا’’کیا تم دونوں جانتے ہو کہ کہاں کھڑے
ہو؟پھر ارشاد فرمایا:تم کس علاقے سے تعلق رکھتے ہو؟ دونوں نے عرض کی:ہم طائف کے
رہنے والے ہیں :ارشاد فرمایا:اگر تم مدینہ منورہ کے رہنے والے ہوتے تو میں (یہاں آواز
بلند کرنے کی وجہ سے) تمہیں ضرور سزا دیتا (کیونکہ مدینہ منورہ میں رہنے والے دربارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آداب سے خوب واقف ہیں
)۔( ابن کثیر، الحجرات، تحت الآیۃ: ۲، ۷ / ۳۴۳)
(6)… اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:امیر المومنین
عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے روضۂ انور کے پاس کسی
کو اونچی آواز سے بولتے دیکھا، فرمایا: کیا اپنی آواز نبی کی آواز پر بلند کرتاہے،
اور یہی آیت (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ) تلاوت کی۔(ہوسکتا ہے کہ واقعہ وہی
ہو جو اوپر چار نمبر کے تحت بیان ہوا ہے۔)( فتاوی رضویہ، ۱۵ / ۱۶۹)
آیت ’’ لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ‘‘ میں دئیے
گئے حکم پر دیگربزرگانِ دین کاعمل:
صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ظاہری حیات ِمبارکہ
میں بھی اور وصالِ ظاہری کے بعد بھی آپ کی بارگاہ کا بے حد ادب و احترام کیا
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ کے جو آداب
انہیں تعلیم فرمائے انہیں دل و جان سے بجا
لائے، اسی طرح ان کے بعد تشریف لانے والے دیگر بزرگانِ دین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ نے بھی دربارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آداب کاخوب خیال رکھا
اور دوسروں کو بھی وہ آداب بجا لانے کی
تلقین کی ،چنانچہ یہاں ان کی سیرت کے اس پہلو سے متعلق3 واقعات ملاحظہ ہوں :
(1)…ابو جعفر منصور
بادشاہ مسجد ِنَبوی میں حضرت امام مالک رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہُ سے ایک مسئلے کے بارے میں
گفتگو کررہا تھا،(اس دوران ا س کی آواز کچھ بلند ہوئی تو) امام مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس سے فرمایا: اے
مسلمانوں کے امیر! اس مسجد میں آواز بلند نہ کر کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک جماعت کو ادب سکھایا اور فرمایا:
’’ لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ‘‘(حجرات:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اپنی آوازیں نبی کی
آواز پر اونچی نہ کرو۔
اور ایک جماعت کی تعریف
کرتے ہوئے فرمایا: ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ
اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ
مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ‘‘(حجرات:۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جولوگ اللہ کے
رسول کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب
ہے۔
اور ایک جماعت کی مذمت
کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اِنَّ الَّذِیْنَ
یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ‘‘(حجرات:۴)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے
باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔
بے شک وصال کے بعد
بھی حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت ایسی ہے جیسی آپ
کی ظاہری حیات میں تھی۔ (یہ سن کر) ابو جعفر نے عاجزی کا اظہار کیا اور کہا: اے ابو عبداللہ! میں قبلہ رُو ہوکر دعا کروں یا، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف رخ کروں ؟ امام
مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: تُو حضورِ
اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کیوں رُخ پھیرتا ہے حالانکہ حضورِانور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تیرے اور تیرے جد ِاَمجد
حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وسیلہ ہیں ، تُو
حضورپُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی طرف رُخ کر اور شفاعت
کی درخواست کر، اللہ تعالیٰ تیرے لئے شفاعت
قبول فرمائے گا۔( الشفا، القسم الثانی، الباب الاول، فصل واعلم ان
حرمۃ النّبی صلی اللّٰہ
علیہ وسلم... الخ، ص۴۱، الجزء الثانی)
(2)…امام مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ (مسجد ِنَبوی میں درس دیا
کرتے تھے ،جب ان) کے حلقہ ٔدرس میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوئی تو ان سے عرض کی گئی :
آپ ایک آدمی مقرر کر لیں جو (آپ سے حدیث پاک سن کر) لوگوں کو سنا دے ۔امام مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ
النَّبِیِّ ‘‘(حجرات:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی
کی آواز پر اونچی نہ کرو۔
اور
رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عزت و حرمت زندگی اور
وفات دونوں میں برابر ہے (اس لئے میں یہاں کسی شخص کوآواز بلند کرنے کے لئے ہر گز مقرر
نہیں کر سکتا)۔( الشفا، القسم الثانی، الباب الاول، فصل واعلم ان حرمۃ
النّبی صلی اللّٰہ
علیہ وسلم... الخ، ص۴۳، الجزء الثانی)
(3)…حضرت سلیمان بن حرب رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ایک دن حضرت
حماد بن زید رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے حدیث پاک بیان کی
توایک شخص کسی چیز کے بارے میں کلام کرنے لگ گیا،اس پر حضرت حماد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ غضبناک ہوئے اور
کہا:اللہ تعالیٰ ارشاد
فرماتاہے:
’’ لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ‘‘(حجرات:۲)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی
نہ کرو۔
اور
میں کہہ رہاہوں کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا جبکہ تم کلام کر رہے ہو (یعنی آواز اگرچہ میری ہے لیکن کلام تو حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ہے،پھر تم اس کلام کو
سنتے ہوئے کیوں گفتگوکر رہے ہو) ۔( شعب الایمان، الخامس
عشر من شعب الایمان... الخ، ۲ / ۲۰۶، روایت نمبر: ۱۵۴۶)
آیت ’’لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ‘‘ سے
متعلق 3 اَہم باتیں
یہاں اس آیت سے
متعلق 3اَہم باتیں ملاحظہ ہوں :
(1)… بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا جو ادب و احترام اس
آیت میں بیان ہوا، یہ آپ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے بلکہ آپ
کی وفات ِظاہری سے لے کر تا قیامت بھی یہی ادب و احترام باقی ہے۔ مفتی احمد
یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اب بھی
حاجیوں کو حکم ہے کہ جب روضۂ پاک پر حاضری نصیب ہو تو سلام بہت
آہستہ کریں اور کچھ دور کھڑے ہوں بلکہ بعض فُقہا نے تو حکم دیاہے کہ جب حدیث ِپاک
کا درس ہو رہا ہو تو وہاں دوسرے لوگ بلند آواز سے نہ بولیں کہ اگرچہ بولنے والا (یعنی حدیث ِپاک کا
درس دینے والا) اور
ہے مگر کلام تو رسولُ اللہ صَلَّی اللہ
عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا ہے ۔(شان حبیب الرحمٰن،ص۲۲۵)
(2)… بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں ایسی آواز بلند
کرنا منع ہے جو آپ کی تعظیم وتوقیر کے برخلاف ہے اور بے ادبی کے زُمرے میں داخل
ہے اور اگر اس سے بے ادبی اور توہین کی نیت ہو تو یہ کفر ہے، لہٰذا جنگ کے
دوران یا اَشعار کی صورت میں کفار کی مذمت بیان کرنے کے دوران صحابہ
ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی جو آوازیں بلند ہوئیں وہ اس آیت میں داخل نہیں کیونکہ یہ
تعظیم و توقیر کے خلاف نہ تھیں بلکہ بعض مقامات پر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اجازت سے تھیں،اسی طرح
اذان کے وقت جو آواز بلند ہوئی وہ بھی اس میں داخل نہیں کیونکہ اذان ہوتی ہی بلند
آواز سے ہے۔
(3)…علماء ِکرام کی مجالس
میں بھی آواز بلند کرنا ناپسندیدہ ہے کیونکہ یہ انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے وارث ہیں۔(قرطبی، الحجرات، تحت الآیۃ: ۲، ۸ / ۲۲۰، الجزء السادس عشر)