Home ≫ ur ≫ Surah Al Imran ≫ ayat 1 ≫ Translation ≫ Tafsir
الٓمَّٓ(1)اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-الْحَیُّ الْقَیُّوْمُﭤ(2)
تفسیر: صراط الجنان
{الٓمَّٓ:}ان حروف کو’’حروفِ مُقَطَّعات ‘‘ کہتے ہیں ،ان کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
{اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ:اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔} مفسرین نے فرمایا کہ’’یہ آیت نجران نامی علاقے کے وفد کے متعلق نازل ہوئی جو ساٹھ افراد پر مشتمل تھا، اس میں چودہ سردار تھے اور تین قوم کے بڑے مقتدا و پیشوا آدمی تھے۔ ان تین میں سے ایک ’’ابو حارثہ بن علقمہ‘‘ تھا جو عیسائیوں کے تمام علماء اور پادریوں کا پیشوا ئے اعظم تھا، عیسائی حکمران بھی اس کی عزت کرتے تھے۔ یہ تمام لوگ عمدہ اور قیمتی لباس پہن کر بڑی شان وشوکت سے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے مناظرہ کرنے کے ارادے سے آئے۔ جب یہ مسجد نبوی شریف عَلٰی صَاحِبَہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں داخل ہوئے توحضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اس وقت نماز عصر ادا فرمارہے تھے۔ ان لوگوں کی نماز کا وقت بھی آگیا اور انہوں نے بھی مسجد نبوی شریف عَلٰی صَاحِبَہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہی میں مشرق یعنی بیتُ المقدس کی طرف منہ کرکے اپنی نماز شروع کردی۔ نماز کے بعدنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے گفتگو شروع کی ۔ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’تم اسلام لے آؤ۔ انہوں نے جواب دیا کہ’’ ہم آپ سے پہلے اسلام لاچکے ہیں۔ سرکارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’ تمہارا اسلام کا دعویٰ غلط ہے اور تمہارے اسلام کے غلط ہونے کا سبب یہ ہے کہ تم کہتے ہو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اولاد ہے، نیز تمہارا صلیب کی پوجا کرنا بھی اسلام سے مانع ہے اور تمہارا خنزیر کھانا بھی اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ’’اگر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خدا کے بیٹے نہ ہوں تو بتائیے ان کا باپ کون ہے؟ پھر وہ سب بولنے لگے۔ حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا :’’کیا تم نہیں جانتے کہ بیٹا باپ سے ضرور مشابہ یعنی ملتا جلتا ہوتا ہے؟ انہوں نے اقرار کیا۔ پھر نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب عَزَّوَجَلَّ ’’حَیٌّ لَایَمُوْتُ‘‘ہے، اس کے لیے موت ناممکن ہے اور حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر موت آنے والی ہے؟ انہوں نے اس کا بھی اقرار کیا ۔ پھر تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ کیا تم نہیں جانتے کہ ہمار ارب عَزَّوَجَلَّ بندوں کا کار ساز، ان کی حقیقی حفاظت کرنے والا اور روزی دینے والا ہے؟ انہوں نے کہا :جی ہاں۔ اس پرنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ’’ کیا حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی ایسے ہی ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا ’’نہیں۔ اس پر نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ پر آسمان و زمین کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ؟ انہوں نے اقرار کیا۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’کیا حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بتائے بغیر اس میں سے کچھ جانتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’ کیا تم نہیں جانتے کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حمل میں رہے اور پیدا ہونے والوں کی طرح پیدا ہوئے اور بچوں کی طرح انہیں غذا دی گئی اور وہ کھاتے پیتے تھے اور ان میں بھی بشری تقاضے تھے؟ عیسائیوں نے اس کا اقرار کیا۔ اس گفتگو پر حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ ان تمام چیزوں کے باوجود پھر حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کیسے خدا ہوسکتے ہیں جیسا کہ تمہارا گمان ہے ؟ اس پر وہ سب خاموش رہ گئے اور ان سے کوئی جواب نہ بن سکا۔ اس پر سورہ ٔآلِ عمران کی شروع سے لے کر تقریباً اسّی 80آیتیں نازل ہوئیں۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۲۲۸)
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ صحیح عقائد کو ثابت کرنے اور ان کے دفاع کیلئے مناظرہ کرنا سنت ہے۔
’’حَیٌّ ‘‘ اور’’قَیُّوْم ‘‘ کا معنی:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات ’’حَیٌّ ‘‘ اور’’قَیُّوْم ‘‘ کا بیان ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں ’’حَیٌّ ‘‘ ’’دائم و باقی‘‘ کے معنیٰ میں ہے ،یعنی اس کا معنیٰ ہے کہ’’ ایسا ہمیشہ رہنے والا جس کی موت ممکن نہ ہو ۔ جبکہ’’قَیُّوْم ‘‘ وہ ہے جو قائم بِالذّات یعنی بغیر کسی دوسرے کی محتاجی اور تَصَرُّف کے خود قائم ہو اور مخلوق کی دنیااور آخرت کی زندگی کی حاجتوں کی تدبیر فرمائے۔