Home ≫ ur ≫ Surah Al Imran ≫ ayat 113 ≫ Translation ≫ Tafsir
لَیْسُوْا سَوَآءًؕ-مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَآىٕمَةٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَ هُمْ یَسْجُدُوْنَ(113)
تفسیر: صراط الجنان
{لَیْسُوْا سَوَآءً: یہ سب ایک جیسے نہیں۔} جب حضرت عبداللہ بن سلام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اور ان کے ساتھی ایمان لائے تو یہودی علماء نے جل کر کہا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ہم میں سے جو ایمان لائے ہیں وہ برے لوگ ہیں ، اگر یہ برے نہ ہوتے تو اپنے باپ دادا کا دین نہ چھوڑتے۔ اس پر یہ آیت نازل فرمائی گئی۔ (تفسیر قرطبی، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۲ / ۱۳۶، الجزء الرابع )
اور بتادیا گیا کہ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی غلامی میں آنے والے ہی تو کام کے آدمی ہیں بقیہ کا حال تو انتہائی بدتر ہے۔ حضرت عطاء رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے کہ یہاں جن لوگوں کی تعریف کی گئی ہے اس سے علاقہ نجران کے40 آدمی، حبشہ کے32 آدمی اور روم کے8 آدمی مراد ہیں جو دینِ عیسوی پر تھے، پھر حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر ایمان لائے۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۳، ۱ / ۲۹۰-۲۹۱)
آیتِ مبارکہ ’’ یَتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّیْلِ‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نمازِ تہجد بہت اعلیٰ عبادت ہے کہ یہاں رات کو اٹھ کر عبادت کرنے والوں کی بطورِ خاص تعریف کی گئی ہے ، اس سے نمازِ عشاء و تہجد دونوں ہی مراد ہوسکتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کے ارکانمیں سجدہ بہت افضل ہے کہ سجدے کا بھی بطورِخاص تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رات کی عبادت ، نماز اور تلاوت دن کی اِن عبادات سے افضل ہے کیونکہ جودل کی یکسوئی رات میں مُیَسَّر ہوتی ہے، دن میں نصیب نہیں ہوتی۔ ہمارے بزرگانِ دین اپنی راتیں عبادت و تلاوت میں گزارا کرتے تھے ،چنانچہ حضرت حسین بن علی کرابیسی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : میں نے کئی بار حضرت امام شافعی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ رات گزاری اور میں نے دیکھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ایک تہائی رات تک نماز پڑھتے اور پچاس آیات سے زیادہ تلاوت نہ کرتے ، اگر کبھی زیادہ پڑھتے تو بھی 100 آیات تک پہنچتے۔ جب کسی آیتِ رحمت کی تلاوت کرتے تو بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں اپنے لئے اور تمام مومنین کے لئے رحمت ملنے کی دعا کرتے اور جب آیتِ عذاب پڑھتے تو اس سے پناہ طلب کرتے اور اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نجات کی دعا کرتے۔ (تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ محمد واسم ابیہ ادریس، محمد بن ادریس بن العباس ابو عبد اللہ الشافعی،۲ / ۶۱)
حضرت فاطمہ بنت عبد الملک رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہا فرماتی ہیں ’’ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے زیادہ نماز پڑھتا اور روزے رکھتا ہو لیکن میں نے لوگوں میں کوئی ایسا شخص کبھی نہیں دیکھا جو حضرت عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے زیادہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتا ہو۔آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ(رات کے وقت) جب گھر تشریف لاتے تو سجدے میں سر رکھ کر روتے اور دعا کرتے رہتے یہاں تک کہ نیند آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی آنکھوں پر غالب آجاتی اور رات میں پھر جب بیدار ہوتے تو اسی طرح کرتے(حلیۃ الاولیاء، عمر بن عبد العزیز، ۵ / ۲۹۴، رقم: ۷۱۷۴)۔[1]
[1]…عبادت کی لگن و شوق پانے اور اس میں یکسوئی حاصل کرنے کے لئے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے تحریر کردہ مدنی انعامات پر عمل کرنا اور دعوتِ اسلامی کے مدنی قافلوں میں سفر کرناانتہائی مفید ہے۔