Home ≫ ur ≫ Surah Al Imran ≫ ayat 125 ≫ Translation ≫ Tafsir
اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّكْفِیَكُمْ اَنْ یُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ مُنْزَلِیْنَﭤ(124)بَلٰۤىۙ-اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا وَ یَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰذَا یُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىٕكَةِ مُسَوِّمِیْنَ(125)
تفسیر: صراط الجنان
{اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ : جب تم مسلمانوں سے فرمارہے تھے۔} شَہَنْشاہِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو حوصلہ دیتے ہوئے اور ان کی ہمت بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’تم اپنی ہمت بلند رکھو ، کیا تمہیں یہ کافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد فرمائے ۔ اس کے بعد فرمان ہے کہ تین ہزار فرشتوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اگرتم صبر و تقویٰ اختیار کرو او راس وقت دشمن تم پر حملہ آور ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ پانچ ہزار ممتاز فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد فرمائے گا۔ یہ ایک غیبی خبر تھی جو بعد میں پوری ہوئی اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے صبر و تقویٰ کی بدولت اللہ تعالیٰ نے پانچ ہزار فرشتوں کو نازل فرمایا جنہوں نے میدانِ بدر میں مسلمانوں کی مدد کی۔
واقعۂ بدر سے معلوم ہونے والے مسائل:
اس آیت اور واقعہ سے 3 باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… بدر میں شرکت کرنے والے تمام مہاجرین و انصار صابر اور متقی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد اتارنے کیلئے صبر اور تقویٰ کی شرط رکھی تھی اور چونکہ فرشتے بعد میں نازل ہوئے تو اس سے معلوم ہوا کہ شرط پائی گئی تھی ،یعنی صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم نے صبر و تقویٰ کا مظاہرہ کیا تھا، لہٰذاصحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے صبر اور تقویٰ پر قرآن گواہ ہے۔
(2)… بدر میں تشریف لانے والے فرشتے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں کہ رب عَزَّوَجَلَّ نے ان پر خاص نشان لگا دئیے تھے جن سے وہ دوسروں سے ممتا ز ہوگئے اور احادیث میں اس کی صراحت بھی موجود ہے کہ بدر میں اترنے والے فرشتے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں۔
(3)… سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت اور مجاہدین کی مدد اعلیٰ عبادت ہے کہ یہ فرشتے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی مدد کیلئے نازل ہوئے اور دوسرے فرشتوں سے افضل قرار پائے۔ لہٰذا حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم تمام مسلمانوں سے افضل ہیں کہ یہ وہ خوش نصیب حضرات ہیں جنہیں حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت نصیب ہوئی۔ حدیث میں ہے’’اللہ تعالیٰ نے اصحابِ بدر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں فرمایا ’’تم جو چاہے عمل کرو تمہارے لئے جنت واجب ہو چکی ہے۔(بخاری، کتاب المغازی، باب فضل من شہد بدرًا، ۳ / ۱۲، الحدیث: ۳۹۸۳)
شہداء بدر ہی کی فضیلت پر ضمناً دلالت کرنے والی یہ حدیث بھی ملاحظہ ہو۔حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالیٰ عَنْہُ فرماتے ہیں ’’غزوۂ بدر کے دن حضرت حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ شہید ہو گئے تو ان کی والدہ نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی :یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ مجھے حارثہ کتنا پیارا تھا، اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کروں اور ثواب کی امید رکھوں اور اگر خدانخواستہ معاملہ برعکس ہے تو آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تجھ پر افسوس ہے ،کیا تو پگلی ہو گئی ہے ؟کیا خدا کی ایک ہی جنت ہے؟ اس کی جنتیں تو بہت ساری ہیں اور بے شک حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنت الفردوس میں ہے۔(بخاری، کتاب المغازی، باب فضل من شہد بدرًا، ۳ / ۱۲، الحدیث: ۳۹۸۲)